تحریر: محمد برہان الدین قاسمی
ہندوستان کا موجودہ نظام تعلیم لارڈ میکالے کے اصولوں پر قائم ہے، جو تقریباً ڈیڑھ سو سال پرانا، فرسودہ اور غلامانہ ذہنیت کا عکاس ہے، ایک بہتر انسان کی تکمیل اور ایک ترقی یافتہ ملک کی تعمیر کے لئے اس نظام تعلیم میں از سرنو تبدیلی ناگزیر ہے۔ اس نظام اور نصاب کی اصولی بنیاد ہی ان باتوں پر ہے کہ طالب علم فراغت کے بعد سرکاری (اس وقت کی برطانوی حکومت) اور نجی کمپنی (اس وقت کی ایسٹ انڈیا کمپنی) کے کاموں کو ایک ملازم یا مزدور کی حیثیت سے بہتر طریقہ سے سر انجام دے، جس سے سرکار اور کمپنی دونوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو، سرکار اور کمپنی ان تعلیم یا ٹریننگ یافتہ کارکنان کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ پیسے، زیادہ مراعات اور زیادہ طاقت فراہم کرے، جس سے دوسرے اور لوگ اس نظام سے جڑیں اور ملک و کمپنی کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنی ظاہری زندگی کو بھی بہتر بنا سکیں. میکالے کا نظام تعلیم بعد میں مقبول ہوتے ہوتے آج مجموعی طور پر پورا مغربی نظام تعلیم کچھ کمی بیشی کے ساتھ اسی کی بنیادوں پر چل رہا ہے. آج تمام عرب ممالک، افریقہ اور ایشیا کے زیادہ تر ممالک سوائے چین اور جاپان و غیرہ کے، اسی نظام تعلیم کا اتباع کرتے ہوئے اس اصولی بنیاد “انسان کو ایک پیسہ بنانے کی مشین کے طور پر فروغ دینا” پر گامزن ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ زیادہ تر عرب ممالک اس مقصد پر بھی کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔
مختصراً، یہ نظام تعلیم زیادہ تر بچوں کو صرف ایک زیراکس مشین بناتا ہے. یعنی مغرب کے کچھ لوگوں نے کام کرنے کے جو اصول مرتب کئے ہیں ان اصولوں کو یاد کرنا، ان پر عمل کرنا اور انہیں کو یاد کر کے کاغذ پر بہتر سے بہتر نقل کر کے زیادہ سے زیادہ نمبرات حاصل کرنا ہی اس نظام تعلیم میں کامیابی سمجھی جاتی ہے اور اسی کی بنیاد پر تقرریاں کی جاتی ہیں۔ اس میں انسانیت، روحانیت، اخلاقیات، عبادات، ما قبل پیدائش اور مابعد موت اور مقصد پیدائش و غیرہ پر کوئی علم طلبہ کو نہیں دیا جاتا ہے۔ اس علم کا محور محض یہ ہے کہ ایک انسان کس طرح زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر کام کر سکتا ہے اور کیسے زیادہ سے زیادہ کما سکتا ہے، اس لئے میرے نزدیک یہ کوئی علم ہے ہی نہیں، بلکہ یہ مستقبل کے حکومتی اور غیر حکومتی ملازمین کی محض ٹریننگ ہے جس کو علم کا نام دے کر پوری دنیا کے ساتھ دھوکہ کیا جارہا ہے. علم انسان کے وجود کے بنیادی مقصد کو جانے بغیر حاصل ہو ہی نہیں سکتا، علم وجود کے مطالعہ سے عدم تک رسائی کا نام ہے۔
موجودہ مدارس اسلامیہ کے نظام و نصاب میں اوپر مذکور علم کے شعبے یعنی انسان کے وجود کی مقصدیت، اخلاقیات اور عبادات و غیرہ موجود تو ہیں، لیکن وہ بھی مغربی نظام تعلیم کی ظاہری کامیابی سے بہت زیادہ متاثر ہونے کی وجہ سے اپنے مقاصد سے دور یا متعدد وجوہات کی بنیاد پران کے حصول میں بہت کمزور ثابت ہورہے ہیں. جس کی وجہ سے وہ شکوک میں مبتلا اور درمیان میں الجھ کر رہ گئے ہیں. نتیجتاً مدارس اسلامیہ کے نظام تعلیم عوامی مقبولیت کھوتے جارہے ہیں، اور ان کے مستفیضین و مستفیدین کی اکثریت میں اعتماد اور آفاقیت کی کمی پائی جاتی ہے۔
مدارس اسلامیہ کو بہر حال اپنے مقاصد اصلیہ کی حصولیابی کے لئے جدید ٹیکنالوجی، جدید طریقہ اور طرز تعلیم کو اپنے اندر بقدر ضرورت شامل کرنا چاہئے. تبدیلی زندگی کی علامت ہوتی ہے اور انجماد موت کی۔ لیکن یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ بنیاد سے ہٹ جانے کو تبدیلی نہیں بلکہ از سرنو تعمیر یا وجود جدید کہا جاتا ہے. آج کل دیکھنے میں آرہا ہے کہ ہر ایرا غیرا مدارس اسلامیہ کے نظام، نصاب، افادیت اور تجدید کاری پر رائے پیش کررہا ہے، آزادی رائے – جو بہترین نعت ہے – کے ہوتے ہوئے یہ کوئی بڑی بات نہیں، بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ اس طرح کی شخصی رائے زنی کو کچھ کج فہم لوگ بین الاقوامی کانفرنس یا بین الاقوامی سیمینار کا نام دے کر عوام الناس کو مغالطہ میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو بہت نا مناسب اور ہر اعتبار سے نا معقول عمل ہے. ویبینار یا ورچوئل کانفرنس، میٹنگ اور جلسوں کی عام طور پر حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ان میں وہی لوگ شریک ہوتے ہیں جن کے نام پوسٹر یا بینر میں موجود ہوتے ہیں، بسا اوقات تمام مدعووین بھی شامل نہیں ہوتے یا پھر ہوتے بھی ہیں تو ہر مقرر یا پرزینٹر اپنی بات یا پرزنٹیشن کے بعد چلا جاتا ہے، دوسروں کو سنتا بھی نہیں، اور پروگرام ختم ہوتے ہوتے محض اینکر صاحب، آخری مقرر اور دو ایک لوگ رہ جاتے ہیں. اس طرح کے پروگراموں کو بین الاقوامی پروگرام کا نام دیکر مدارس اسلامیہ یا کسی بھی سنجیدہ نظام میں کسی بھی قسم کے تبدیلی کا مطالبہ محض پاگلوں کے بڑبڑاہٹ اور گمراہ کن خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔صرف بازاری لوگ ہی اپنے مفاد میں ہر اس چیز سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو بازار میں زبان عام ہو۔ مدارس سے تعلیم یافتہ لوگ بھی دنیا کے ہر بازار میں موجود ہو سکتے ہیں. اس لئے حکمت اسی میں ہے کہ خریدار ہر پہلو سے جانج کر کے ہی خریدیں اور محض نام کے بجائے کام دیکھ کر اپنے رائے قائم کریں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)