(ترجمہ: نقی احمد ندوی، ریاض)
بھارت میں سیاسی شعبدہ بازیوں کا وبائی حقیقت سے سامنا ہوچکاہے، مارچ کے شروع میں نریندر مودی حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اب ملک کورونا کے آخری گیم میں داخل ہوچکا ہے، مگر اس کے برخلاف اب بھارت ایک دہکتے ہوئے جہنم میں داخل ہوچکا ہے، کورونا B.1.617 ایک نئے روپ میں دوسرے دور کی وبا میں پھیلنا شروع ہوچکاہے اور اس وقت اسپتالوں میں بیڈ اور آکسیجن موجود نہیں ہیں،اموات اس قدر ہورہی ہیں کہ لاشوں کے رکھنے کی جگہ نہیں ہے اور لاشیں گھروں میں سڑنے لگی ہیں۔ چیریٹی والوں نے وارننگ دیا ہے کہ ہلاک ہونے کا رسک اب گلیوں میں چھوڑا جارہا ہے۔
لگاتار دوسرے دن کورونا کے تین لاکھ بتیس ہزار سات سو تیس کیس سامنے آئے ہیں جو ایک دن میں بڑھنے والی دنیا کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 22 سو سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں، دوسرے ممالک نے اپنے شہریوں کو بھارت جانا منع کردیا ہے اور بھارت سے آنے والوں کو کوارنٹین کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔ ابھی صرف چھ ہفتہ سے کچھ پہلے جبکہ ملک کی ایک فیصد آبادی کو بھی ویکسن نہیں دیا جاسکا تھا، پھر بھی مسٹر مودی نے اپنے ملک کو دنیا کا دوا میں وشو گرو ہونے کا دعویٰ کردیا تھا اور اس وبا سے پہلے والی ایک نارمل سی زندگی کا اشارہ دے دیا تھا۔ یہ وبا سونامی کی شکل اس وقت اختیار کرگئی جب ہزاروں لوگوں نے کرکٹ اسٹیدیم میں پہنچ گئے اور لاکھوں سادھوؤں نے کمبھ میلہ کے موقع پر گنگا میں ڈبکی لگائی۔
مسٹر مودی الیکشن ریلیاں ڈونالڈٹرمپ کی طرح نہیں چھوڑیں گے چاہے سونامی کی طرح پھیل رہا ہو، اپریل میں بھارت کے چھ صوبوں میں الیکشن ہوااور مسٹر مودی نے بغیر ماسک لگائے بڑی بڑی ریلیوں کو خطاب کیا۔ مسٹر مودی کے بھارت کو ایک الگ قسم کا ملک بنانے کی کوشش نے یہ حالت پیدا کی اور ان کی قومی عظمت کے ایک جھوٹے خیال نے تیاریوں کی کمی کا باعث بنی اور وہ بھی خاص طور پر ویکسن کے پروڈکشن میں۔ مغربی ممالک نے بھارت کی ہمت افزائی کی تھی تاکہ وہ دواؤں کے پروڈکشن میں ایک قائدانہ رول ادا کرے، مگر اس ہفتہ جرمن چانسلر انجیلا مارکل نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ شاید وہ ایک غلطی تھی ۔ چین اور امریکہ نے بھارت سے زیادہ ویکسن بنانا شروع کردیا ہے اور ابھی بھارت واشنگٹن کو منانے میں کامیاب بھی نہیں ہوا ہے کہ بھارت کے ایکسپورٹ میں آسانی پیدا کرے۔
بھارت کے وزیراعظم خود اپنی جبلت کی وجہ سے اوبر کانفیڈنس کا شکار ہیں اور اپنے مشیروں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ان کے وزیروں نے سابق وزیراعظم کے مشوروں کو ٹھکرادیا جنھوں نے کورونا کا شکار ہونے سے پہلے اسی ہفتہ میں کچھ مشورے دئے تھے۔ گذشتہ سال مسٹر مودی نے ایک ارب کی آبادی پر ایک ظالمانہ طریقہ سے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا، ملک کے وبا کے تعلق سے تمام ماہرین کے مشورہ کے خلاف انھوں نے لاک ڈاؤن لگا دیا جو ان کے ڈرامائی ایکشن سے ہم آہنگ تھا۔ نوجوان آبادی کے زیادہ ہونے کی وجہ سے بھارت میں کورونا سے اموات کی شرح دوسرے ملکوں کے مقابلہ میں کم تھی، ایسے وقت میں جبکہ اموات کی تعداد کم دکھانے کا الزام لگتا رہا ہے، یہ شعور عام طور پر پیدا ہوگیاتھا کہ بھارت کے لوگوں کے اندر اس وائرس سے بچنے کی قوت ہے مگر ایسے غلط تصورات کو بھی مسٹر مودی نے غلط نہیں بتایا۔
پہلے دور میں کورونا کا حملہ شہروں پر تھا مگر اب یہ ان دیہاتوں میں بھی پھیلتا جارہاہے جہاں بھارت کی بیشتر آبادی رہتی ہے، دنیا کے دوسرے ممالک جہاں اس کورونا کی تباہی کا بھیانک شکار ہوئے، وہیں اس مغرور اور نااہل گورمنٹ کی وجہ سے جو اموات ہورہی ہیں ان سے بھارت بہت آسانی کے ساتھ بچ سکتا تھا، بھارت ایک پیچیدہ اور بڑا اور متنوع ملک ہے جس پر عام حالات میں حکومت کرنا مشکل ہوتا ہے، چہ جائے کہ وبا کے ایمرجنسی کے دور میں، ابھی بھارت کورونا اور خوف دونوں کا متوازی شکار ہے۔ ایسی وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے قابل اعتماد یقین دہانی، خوف کو دور کرنے اور لوگوں کو ماسک پہننے اور جسمانی دوری اختیار کرنے کی پابندی کرنے کی ضرورت ہے۔
مسٹر مودی نے اپنی کارستانیوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے اب صوبائی حکومتوں پر زور دینا شروع کردیا ہے۔ ان کے بس کی اب نہیں رہی، ان کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور انھیں سدھارنا چاہیے جن کی وجہ سے ملک کو اتنا نقصان ہوچکاہے، اس وقت ان کو ماہرین سے مدد لینے کی ضرورت ہے کہ کس طرح پابندیا ں عائد کی جائیں اور حکومت کس طرح کام کرے کہ حکومت کے قول وفعل میں صداقت پائی جاسکے اور اپنے فرقہ وارانہ طریقہ کار کو چھوڑنا چاہیے، کیونکہ ابھی تقسیم کی نہیں بلکہ اتحاد کی ضرورت ہے، مستقبل کے تاریخ داں مسٹر مودی کا بہت سختی کے ساتھ محاسبہ کریں گے اگروہ اپنے فرقہ واریت اور استثنائیت کے نظریات پر قائم رہے جس نے ملک کے پبلک ہیلتھ سسٹم کو بربادی کی اس انتہا تک پہنچادیاہے۔
(دی گارجین اخبار کا انٹرنیشنل ایڈیشن بروز جمعہ23اپریل2021 کا اداریہ)