تحریر:سمیر چودھری
ملک کی آزادی اور اس کی تعمیر و ترقی میں مدنی خانوادہ کی قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں، ملک کی آزادی میں حضرت شیخ الاسلام مولاناسید حسین احمد مدنیؒ نے جو صعوبتیں برداشت کیں وہ تاریخ کا زریں باب ہے۔ حضرت شیخ الاسلام نے ملک کی آزادی کے بعد تقسیم ہند کی شدت کے ساتھ مخالفت کی اور ہندوستان کو اپنا مسکن بنایا، ملک کی آزادی میں حضرت شیخ الاسلام کی بے مثال قربانیوں کے با وجود آزادی کے بعد حضرت نے خود کو الگ کرلیا تھا اور مکمل طور پر دارالعلوم دیوبند اور درس و تدریس میں مشغول ہو گئے تھے۔
آزادی کے بعد ملک میں پنڈت نہرو کی قیادت میں کانگریس کی حکومت تشکیل پائی، جس کے بعد حکومت نے ملک کی آزادی میں حضرت شیخ الاسلام کی خدمات کے اعتراف میں پدم بھوشن اعزاز دینے کا اعلان کیا لیکن حضرت شیخ الاسلام نے یہ کہ کر یہ اعزاز لینے سے منع کردیا کہ ”ملک کی آزادی کے لئے جدوجہد میرا فرض تھا“۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اسی وقت سے خاندان مدنی کی کانگریس سے قربیتیں رہی ہیں۔ 1973 میں صدر جمعیة علماءہند منتخب ہوئے جانشیں شیخ الاسلام حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی رحمۃ اللہ کو کانگریس نے تین مرتبہ راجیہ سبھا کا ممبر منتخب کیا۔
حضرت فدائے ملت بھلے ہی ملک کی ایک مذہبی اور ملی شخصیت تھیں لیکن سیاست میں بھی ہمیشہ اُن کا زبردست اثر رسوخ رہاہے اور وقت کے قائدین ہمیشہ حضرت فدائے ملت کی خانقاہ اور ان کے دسترخوان پر حاضری دیتے رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی،ارجن سنگھ، راجیو گاندھی،اٹل بہاری واجپئی، فخر الدین علی احمد، سونیا گاندھی، راہل گاندھی، ملائم سنگھ یادو، این ڈی تیواری سمیت ملک کے ممتاز سیاسی رہنماؤں نے ہمیشہ فدائے ملت کا احترام کیا ہے۔
حضرت فدائے ملت کی زندگی کے مختلف گوشہ تھے اور انہوں نے ہر میدان میں نمایاں انداز میں اپنی خدمات انجام دیں، سیاست میں بھلے ہی انہوں نے الیکشن نہیں لڑا ہو لیکن 1968 سے 1974، 1980 سے 1986 اور 1988 سے 1994 تک وہ کانگریس کے ذریعہ منتخب ہوکر راجیہ سبھا کے ممبر رہے ہیں۔ حضرت مرحوم نے کبھی نہ الیکشن لڑا اور نہ ہی کبھی کسی کے لئے ووٹ مانگے، لیکن کانگریس سے قدیم مراسم ہونے کے سبب ہمیشہ انکا رجحان کانگریس کی جانب رہاہے۔
وہیں جانشیں فدائے ملت اور صدر جمعیة علماءہند مولانا سید محمودمدنی ایک وقت سرگرم سیاست کا حصہ رہے ہیں اور انہوں نے دو مرتبہ لوک سبھا کا الیکشن سماجوادی پارٹی سی لڑا ہے لیکن کامیابی نہیں مل سکی۔ 1998 میں آسام کی ڈوبھری سیٹ سے مولانا محمود مدنی نے سماجوادی پارٹی کے نشان پر لوک سبھا کا الیکشن لڑا تھا لیکن یہاں اُنہیں صرف 64805 ووٹ ملے تھے اور وہ چوتھے مقام پر رہے تھے۔
دوسری مرتبہ 2004 میں مولانامحمود مدنی نے امروہہ لوک سبھا سے آر ایل ڈی کے نشان پر سماجوادی پارٹی اور آر ایل ڈی کے متحدہ امیدوارکے طور پر الیکشن لڑا مگر یہاں بھی جیت حاصل نہیں ہوئی اور مولانا مدنی 269638 ووٹ لیکر دوسرے مقام پر رہے، اس کے بعد مولانا محمود مدنی نے کوئی الیکشن نہیں لڑا لیکن راشٹریہ لوکدل نے سماجوادی پارٹی کے تعاون سے مولانا سید محمود مدنی کو راجبہ سبھا کاممبر منتخب کیا تھا اور مولانا محمود مدنی 2006 سے 20012 تک راجبہ سبھا کے ممبر رہے ہیں۔
حضرت فدائے ملت کے چھوٹے صاحبزادے مولانا سید مودود مدنی نے 2009 میں امروہہ سے بی ایس پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا لیکن انہیں تیسرا مقام حاصل ہوا تھا اور وہ بھی یہ الیکشن جیتنے میں ناکام رہے تھے۔ مولانا مودود مدنی کو یہاں 170396 ووٹ حاصل ہوئے تھے۔
وہیں حضرت مدنی کے بیٹے اور موجود مجلس امیدوار حافظ عمیر مدنی کے والد مولانا مسعود مدنی نے کبھی الیکشن تو نہیں لڑا لیکن وہ اتراکھنڈکی این ڈی تیواری حکومت میں ریاستی درجہ حاصل کی حیثیت سے وزیر رہے ہیں اور اتراکھنڈ میں ایک وقت وہ کافی سرگرم سیاست داں کے طور پراپنی شناخت رکھتے تھے۔
اب ان کے چھوٹے صاحبزادے حافظ عمیر مدنی نے سیاست میں قدم رکھا اور مجلس اتحاد المسلمین کے ٹکٹ پر دیوبند سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، نتیجہ کیاہو گا یہ تو وقت بتائے گا لیکن عمیر مدنی نے اس موقر خاندان کی تیسری نسل کی طور پر سیاست میں قدم آگے بڑھایا اور امید کی جانی چاہئے کہ اس کے مثبت نتائج برآمد ہونگے۔ یہ بھی واضح رہے کہ مدنی خاندان نے کبھی مسلم سیاسی جماعتوں کی حمایت نہیں کی اور ہمیشہ سیکولر جماعتوں کو ہی ترجیح دی ہے مگر عمیر مدنی نے خاندان کی اس روایت کو توڑ کر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور بیرسٹر اسد الدین اویسی کے ساتھ سیاست میں قدم سے قدم ملا کر چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔
غور طلب ہے کہ سرگرم سیاست سے بھلے ہی مدنی خاندان دور رہتا ہو لیکن ہمیشہ نامور سیاستدانوں اور حکمرانوں نے نہ صرف اس خاندان کو ترجیح دی ہے بلکہ ہمیشہ اس کے عزت و احترام کو بھی برقرار رکھا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)