تحریر:عمیر انس
یہ مضمون نوجوانوں میں پیدا بے چینی،ذہن میں اٹھتے سوالات اور نئی پرانی نسل کے درمیاں بڑھتی خلیج کی عکاسی کرتاہے ،جن کو جاننا ضروری ہے اس سے کبھی کبھی یک رخاپن بھی آجاتاہے مگر ان آوازوں کو ڈانٹ کر چپ نہیں کرایا جاسکتا اس میں ظاہر خیالات سے اتفاق کرنے نہ کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہوئے بطور ایک نقطہ نظر استفادہ کی غرض سے نذر قارئین ہے: (ادارہ)
کسی شاندار عمارت والے ادارے میں کوئی غیر دانشمند صاحب کرسی ہو تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اس ادارے کے ذرائع وسائل کس نہج پر خرچ ہو رہے ہوںگے؟ اگر آپ ملت اسلامیہ کا عمومی رویہ دیکھیں تو آپ اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ ہمارے یہاں ادارے بنانے میں زیادہ دیر نہیں لگتی، وسائل جمع کرنے میں بھی ویسی پریشانی نہیں ہوتی، کروڑوں روپیہ کی مالیت سے عمارتیں بھی بن جاتی ہیں، کئی بار تو حکومتیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں کہ مسلمان اکیلے دم پر بغیر حکومتی امداد کے اتنے بڑے بڑے کام کیسے انجام دے لیتے ہیں، دنیا کی کسی قوم کے پاس کبھی بھی اتنے منظم انداز میں مدارس اور خانقاہیں قائم کرنے کی روایت کبھی نہیں رہی، خود ہندوؤں میں آشرم کھولنے کی روایت مسلمانوں سے متاثر ہوکر شروع ہوئی، لیکن یہ بہترین ادارہ ساز فکر ہونے کے باوجود ملت اسلامیہ کے مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں، بلکہ بعض مسائل تو پہلے سے زیادہ گہرے اور ناقابل حل مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں، تھوڑا غور کرکے آپ آسانی سے چند اسباب کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔
اول:
منظم اور محقق تفکر کا فقدان، یعنی کہ جو جسکے سمجھ میں آرہا ہے کر رہا ہے، کس منہج پر غور و فکر درست اور قابل قبول ہے اس پر زیادہ فکرمندی نہیں رہی ہے، کسی نے خواب دیکھا لیا، کسی کو اس کے مرشد نے اشارہ فرما دیا، کسی کے قلب میں الہام ہوگیا، کسی کو جذبات اور احساسات نے مجبور کر دیا، شاید دار العلوم ندوۃ العلماء اور جماعت اسلامی کے قیام کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسے ادارے ہوں جن کو قائم کرنے سے پہلے معاشرے میں بڑے پیمانے پر مذاکرات اور مباحثے ہوئے ہوں، خیر ، اس پہلو پر تفصیلی گفتگو پھر کبھی، فی الحال موضوع گفتگو افرادی وسائل پر ہے۔
دوسرا:
سبب یہ ہو سکتا ہے اور شاید ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک انسان اور اس کی ذہنی صلاحیتیں، اس کی تخلیقی صلاحیت، اس کی منتظمانہ اور مدبرانہ صلاحیتیں کبھی بھی مرکزی فکر نہیں رہی، جب تک وہ اپنے کسی معجزاتی، روحانی، کرشماتی اور حیران کن پہلوؤں سے بھیڑ کو متاثر کرنے والا نہ ہو جائے، آپ ایک لاکھ کی دیہاتی آبادی کو اپنی تقریر کے جوش سے اگر رات بھر کھڑا رکھ سکتے ہیں تو پھر ملت میں آپ کی شخصیت کے تعارف میں جامع الکمالات کا سابقہ اپنے آپ لگ جائے گا، چونکہ ہنگامہ خیز حالات میں اس طرح کے افراد کی بہت ہی اہمیت اور ضرورت ہوتی ہے اور ملت اسلامیہ1857کی ناکام تحریک سے ابھی تک ہنگامی حالات کی ہی نفسیات میں جی رہی ہے اس لیے ملت میں کرشماتی، معجزاتی، سحر انگیز شخصیات ہی مقبول ہیں۔
مثال کے طور پر مرحوم سید شہاب الدین صاحب ایک سفیر کے طور پر گمنامی میں ختم ہو جاتے اگر وہ بابری مسجد تحریک كا حصہ نہ بنتے اور اڈوانی کے مد مقابل ایک مشہور مقرر نہ ہو جاتے، ملت کے سواد اعظم کو پتہ بھی نہیں ہوگا کہ ان کا اصل کام تو مسلم انڈیا جرنل تھا جس نے ان کی تقریروں سے دس گنا زیادہ اثر پیدا کیا تھا، لیکن دیکھیے مقرر شہاب الدین آج بھی مسلم حافظے میں زندہ ہے اور مسلم انڈیا کا مدبر شہاب الدین تو کب کا غائب ہو چکا ہے، ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب کی شخصیت سے سب کو محبت ہے لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ ملی گزٹ ختم ہوگیا، اور یاد آیا، اعظم گڑھ کا دار المصنّفین بھی تو اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے، جی وہی دار المصنّفین جو علمی دنیا کا مایہ افتخار ہے، اور بھی متعدد مثالیں موجود ہیں یہ ثابت کرنے کے لیے ملت اسلامیہ کی تدبیر میں کہیں نہ کہیں ایک بنیادی کمزوری ہے، اور میرے نزدیک کمزوری یہ ہےکہ ہم معجزات کا وعدہ کرنے والوں کو کروڑوں روپیہ دے سکتے ہیں لیکن حقیقی دنیا میں نبرد آزما ہونے والوں کو کچھ نہیں، کمی یہ ہے کہ بڑی عمارتوں کو یا بڑے دکھاوے کو کام سمجھتے ہیں لیکن اس عمارت کو کون سنبھالے گا اور کون اس کو آگے لے جانے کی تدبیر کرنے کا اہل ہے اس سلسلے میں ہم افراد پر اور ان کے دماغوں پر ان کی صلاحیتوں پر ان کی تخلیقیت پر انویسٹمنٹ کرنے کی بجائے صرف معجزے کے منتظر رہتے ہیں۔
آپ شُماری شروع کریں کہ کون کون سے ادارے جو آج سے بیس سال پہلے پچاس سال پہلے شاندار سمجھے جاتے تھے آج اپنے بقا کے لیے فکر مند ہیں، اور اس زوال میں سبھی ملی تنظیمیں اور ادارے ایک جیسے ہیں، اسلامی تنظیمیں آج کی تاریخ میں ایک بھی ایسا تعلیمی ادارہ پیش نہیں کر سکتی جس کو وہ اپنا مثالی ادارہ کہہ سکے، ندوہ اور دیوبند کا تذکرہ نہ ہو تو بہتر ہے، بریلوی حضرات کے ادارے خصوصاً جامعہ اشرفیہ کی حالت زار بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، ملت کے جدید تعلیمی اداروں کا رخ کریں۔ملت کے قائم کردہ درجنوں انٹر کالج میں سے کون سا کالج آپ بیسٹ پرفارمنگ کہیں گے؟ لکھنو میں ممتاز کالج کو ہمیشہ سے محتاج کالج کے نام سے جانا گیا، اور انٹیگرل یونیورسٹی میں تو کتنے معروف علماء کی سرپرستی تھی اور انکے صدقے انکو خلیجی ممالک کا تعاون بھی ملا اور پھر کیا ہوا؟ ایک عظیم ادارہ مکمل طور پر ایک فیملی بزنس میں تبدیل ہوگیا، کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہم نے عمارتوں پر اداروں پر خوب خوب پیسہ خرچ کیا لیکن نتیجے متوقع نہیں ہیں.اور اسکے مقابلے میں ہم نے افراد پر کتنا انویسٹ کیا؟
مثال کے طور پر ملت اسلامیہ کے مزاج اور کلچر کو اور افراد کے ذہن کو شکل دینے والے چند مناصب میں سے استاذہ، ائمہ، خطباء، صحافی حضرات، طلبہ اور محققین، ہوتے ہیں. کسی بھی ملی ادارے کے کالج میں پڑھانے والا استاذ سب سے مظلوم قوم ہے، آپ چاہیں تو انٹیگریل یونیورسٹی کے اساتذہ سے پوچھ لیجئے، مسلم جماعتوں کے اسکولوں میں سب سے شاندار مشاہرہ آج بھی دس سے پندرہ ہزار سے زیادہ نہ ہوگا، ورنہ اوسط تو آٹھ سے دس ہزار کا اور چھوٹے گاؤں میں صرف تین سے پانچ ہزار کا ہوگا، جمعیت کے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی تنخواہ کا بھرم اسی وقت تک ہے جب تک آپ خاموش ہیں، تو جناب اگر آپ کے درمیان پانچ ہزار اساتذہ گھٹیا تنخواہوں اور مجبوراً کام کر رہے ہیں تو آپ لکھ لیجئے کہ لاکھوں بچوں کا مستقبل اندھیرے میں ہے، یہ ملی قیادت کیوں نہیں سوچتی کہ اگر وہ استاذہ کو ہر حال میں بہترین تنخواہیں بہترین پرفارمنس کے بدلے دیں گے تو آپ لاکھوں بچوں کا مستقبل بہتر بنائیں گے اور پھر یہی بچے واپس اتنی تنخواہوں کے برابر اور بلکہ اس سے زیادہ آپ کو چندہ دیں گے، آپ کے زیادہ تر بچے بڑے ہوکر اگر بیروزگار بنیں گے تو ملت پر مالی بوجھ تو بڑھے گا ہی، اگر تھوڑا کرپشن کم کر دیں، دیکھیں قابل اساتذہ کی لائن لگ جائے گی، آپ منہ مانگی تنخواہ دیجئے اور منہ مانگی پرفارمنس بھی مانگیے، لیکن آپ کو در اصل پرفارمنس سے کوئی لینا دینا ہے ہی نہیں، ملت کے ہائی اسکول اور انٹر کالج اگر اچھے اساتذہ نہیں رکھ سکتے تو خدا را اسکول بند کر دیجئے، بچوں کے مستقبل کو برباد کرنے کا گناہ اپنے سر مت لیجئے۔
اب بات کریں اماموں کی، ایک امام صرف نماز نہیں پڑھاتا بلکہ وہ اپنے نمازیوں کو تحریک دیتا ہے، ان کے اخلاق اور کردار کو بھی بہتر بنانے میں توجہ دیتا ہے، محلے کے بچے اور جوان اسکو ایک-اچھے انسان کی مثال کے طور پر دیکھتے ہیں، ملک میں لاکھوں مساجد ہیں، بہت بڑی، بہت چھوٹی، اور اوسط رقبے والی، کروڑوں مسلمان روزانہ ان اماموں کو دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، پوچھتے ہیں، جواب لیتے ہیں، کیا آپ کو نہیں لگتا آپ کے عوامی کلچر میں اتنا اہم کردار اور سب سے زیادہ نظر آنے والا کردار سب سے موثر کیوں نہ ہو؟ کیوں نہ امام کے مختلف گریڈز کے اعتبار سے ان کی تنخواہیں اسٹینڈرڈ بنائی جائیں، اگر چپراسی کا انتخاب آپ مقابلہ سے کرتے ہیں، ٹھوک بجا کر منتخب کرتے ہیں، تو امام کا تقرر کیوں نہیں ملک گیر امتحان سے کریں، آپ۔پچاس شرطیں رکھ دیجئے، لیکن ہر شرط پر ایک ہزار روپے کا اضافہ رکھیے، پچیس ہزار، رہائش اور اس کے بچوں کی تعلیم اور صحت کی گارنٹی دے دیجئے، اس کے بعد آپ دیکھیں جے این یو اور آئی آئی ٹی کے طلبہ بھی عربی زبان سیکھ کر قرآن یاد کرکے امام بننے کی خواہش کریں گے، مدارس کے فارغین بھی یہ سوچنا بند کر دیں گے کہ اگر زندگی میں کچھ نہیں ملا تو امامت تو ملے گی ہی۔
گفتگو کا موضوع یہ ہےکہ افراد پر انویسٹمنٹ کیا جائے، صلاحیتوں پر پیسہ لگایا جائے، قابلیت پر پیسہ خرچ کرنا پیسے کا زیادہ درست استعمال ہے، کیا کریں گے جب شاندار عمارتیں کھڑی ہونگی اور اسکو چلانے والے سنبھالنے والے اہل افراد آپ کے پاس نہیں ہونگے، مجھے ٹھیک سے یاد ہے مولانا سلمان ندوی صاحب نے جمعیت الشباب قائم کی تھی، شروعات میں مولانا نے بڑے اچھے نوجوانوں کو فروغ دیا، لیکن پھر جمیعت باقی رہی لیکن بغیر شباب کے، کیونکہ افراد پر وسائل خرچ کرنے کی بجائے مٹی اور سیمنٹ پر پیسہ لگانا زیادہ اہم ہو گیا، دس کروڑ کی عمارت میں تین ہزار روپیے کا مولوی کیسے پڑھا سکتا ہے؟ ٹھیک ہے ہم چند جملوں میں مولوی کے صبر اور عزیمت پر خراج تحسین پیش کر سکتے ہیں لیکن اس جھوٹی تعریف سے اسکی مجبوریاں اور ضرورتیں تو ختم نہیں ہو جاتیں! اسکا یہ مطلب نہیں ہےکہ ہمارے ائمہ اور اساتذہ اچھے کام نہیں کر رہے ہیں، ملت کا سچا درد جس کو بھی ہو وہ بغیر معاوضے کے بھی زندگی بھر کام کریگا، لیکن انکا کیا جو انکے نام پر چندے جمع کرتے ہیں، اپنے لیے گاڑیاں خریدتے ہیں، اپنے گھر بناتے ہیں، اپنی ذات پر سب کچھ خرچ کرتے ہیں لیکن اپنے اساتذہ، ائمہ، مفتیان، مدرسین، صحافیوں پر کل چندے کا دس فیصد بھی خرچ نہیں کرتے!
ملی اداروں کی بد انتظامی، نا اهلی، بے حکمتی دیکھ کر میں صرف اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس وقت ہمیں افراد پر پیسہ لگانا چاہیے، اداروں کو مجبور کریں کہ وہ اپنے اساتذہ کو بہترین تنخواہیں دیں، ملت کی صحافت کا جو حال ہے آسکی وجہ یہ ہےکہ ملت کا میدان صحافت بلا مقابلہ کا میدان ہے، جس صحافی کہ قلم ذرا بھی مضبوط ہوئی وہ پہلی فرصت میں بہتر تنخواہوں والے اشاعتی اداروں میں جانے کی تدبیر کرتا ہے، ملی صحافت میں بچے کھچے مجبور صحافی بچتے ہیں، محققین پر تو ہماری ملت پیسہ خرچ کرنا بند کر چکی ہے، اب کہاں ملکہ بھوپال ہیں کوئی، یا نظام حیدرآباد جو محققین کو انکے شایان شان معاوضہ دیکر علمی کام کرائیں! سوچیے شبلی کی سیرت النبی ممکن تھی کیا اگر ایک بڑی مالی سرپرستی نہ ہوتی؟ آج کی تاریخ میں ایک محقق کی تنخواہ پچیس ہزار سے شروع ہوتی ہے، اسکے مقالات کی کوالٹی اور امپیکٹ کے اعتبار سے اسکی تنخواہ بڑھتی جاتی ہے، لیکن آپ کسی گھمنڈی پیسے والے سے ایک محقق کے لیے پچیس ہزار کا۔چند مانگ کر دکھائیں؟ اسکو تو تحقیق کی ضرورت کا ہی احساس نہیں، تحقیق پروجیکٹ کو سپورٹ کرنا تو بہت دور کی بات۔
اور آخری طبقہ طلبہ کا ہے، وہ طلبہ جو مدارس میں ہیں یا جدید تعلیمی اداروں میں، مدارس اپنے طلبہ کی صلاحیت، صحت، فکری صحت پر سب سے مہنگا عمل جو کرتے ہیں وہ حضرت شیخ، کے خطابات ہیں بس، ایسا نہیں ہےکہ مدارس طلبہ کے ارتقاء پر پیسہ خرچ نہیں کر سکتے لیکن اول تو طلبہ کے قیام اور طعام کے علاوہ ان کے پاس کوئی بجٹ ہی نہیں ہوتا، کچھ نادی اور جمعیتیں ہوتی ہیں لیکن ان کا حال مت پوچھئے، طلبہ کو صحت مند ماحول ملے، مقابلے کا موقع ملے، اظہار خیال کی صحیح تربیت ہو، اسپیشل سکلز کی ٹریننگ ہو، دور جدید کے کمیونی کیشن کے طور طریقوں سے شناسائی کرائی جائے، ان کو اس دنیا میں کامیاب ہونے کا احساس دلایا جائے، پچیس بڑے عالمی سطح کے مدارس کے فارغین کا آڈٹ کر لیں، کہاں گئے ان کے طلبہ؟ کیا منتظمین مدارس کو افسوس نہیں ہوتا؟ یہاں آكاش کوچنگ والے کو بھی پتہ ہے کہ وہ اگر اس کے بچے میڈیکل میں کم آئے تو اس کے داخلے کم ہو جائیں گے، ایک مدارس ہیں جو کبھی سوچتے ہی نہیں کہ ان کے فارغین کہاں کھپ رہے ہیں، میں اپنے ہی ہم جماعت ساتھیوں کو جانتا ہوں جو صرف اس وجہ سے اپنے شیخ کی نظر سے گر گئے کیونکہ وہ اپنے شیخ سے زیادہ با صلاحیت ہونے کا عزم اور صلاحیت دونوں رکھتے تھے، مدارس کے ناظمین سے بدترین خوشامند پسند دنیا میں کوئی قوم نہیں ہے، اور وہ طلبہ نہیں بلکہ مریدین کی جماعت دیکھنا چاہتے ہیں، انٹر کالج اور اسکولوں کے طلبہ اس معاملے میں تھوڑے زیادہ خوش قسمت ہیں لیکن کافی نہیں ہے، مسلمان انتظامیہ کے تحت چلنے والے انٹر کالجوں کی رینکنگ کرنے والا کوئی ادارہ ہی نہیں ہے، جماعت کے تحت ہیومن ویلفیئر فاؤنڈشن ایسی رینکنگ کر سکتا ہے، اپنے اداروں کا آڈٹ کرنا شروع نہیں کریں گے تو یہ اسکول اور مدارس طلبہ کے تاریک مستقبل مرکز بن جائیں گے۔
المختصر:اچھی عوام تیار کرنے کے لیے معیاری اساتذہ کی ایک نسل تیار کی جائے، تدریس کا پیشہ سب سے آخری چارہ نہیں بلکہ سب کی پہلی چوائس ہو اتنا ان کو دیا جائے،اس کے بدلے میں ان سے وفاداری نہیں بلکہ نتیجہ خیز تدریس مطلوب ہو، جس اسکول سے بچے میڈیکل اور انجینئرنگ اور دیگر امتحانات میں منتخب نہ ہوں وہاں اساتذہ کی ذمہ داری طے ہو۔
معاشرے میں بہتر ماحول بنانے اور تعمیری مذہبی فکر کو عام کرنے کے لیے امامت کا منصب بھی لاچاری اور بے بسی کا مظہر نہ ہو کر طاقت اور قوت کا مظہر ہو جائے، اتنا کہ نئی نسل ائمہ حضرات کے ساتھ وقت گزارنے میں افادیت محسوس کریں۔
ملی ادارے اپنے پیسے خرچ کرنے کے طریقوں پر نظر ثانی کریں، خواہ نئی عمارتوں کی تعمیر موقوف کرنی پڑے، لیکن اساتذہ کی بہبود اور طلبہ کے سیکھنے کے مواقع پیدا کرنے والے وسائل پر پیسہ خرچ کرنا سب سے پہلی ترجیح ہو، مدارس کا ایک جال ہے لیکن کم سے کم مکڑی کا جال بھی باہم مربوط ہوتا ہے، مدارس کے طلبہ کو بھی مقابلہ، مکالمہ، مباحثہ، اشاعت، سپورٹس اور تنوع کے مقابلے کے مواقع فراہم کیے جائیں، ہے فائدہ عوامی جلسے، کانفرنسیں، دستار بندیاں، ملت کے وسائل کی بربادی نہیں تو کیا ہے۔
اچھے اساتذہ کا ایوارڈ، اچھے طلبہ کا ایوارڈ، بہترین انتظامیہ کا ایوارڈ، بیسٹ رینکنگ اسکول اور مدرسے کا ایوارڈ، بلکہ مساجد کی رینکنگ اور ائمہ کی رینکنگ۔بھی کیوں نہ ہو، ائمہ کی افادیت کی رینکنگ ہو، مساجد کی افادیت کی رینکنگ ہو، انہیں انعامات اور امتیازات دیے جائیں۔
اچھے رسالوں کی رینکنگ ہو، صحافیوں کی رینکنگ جو، کتابوں اور مصنّفین کے ایوارڈز ہوں، الغرض اچھا کرنے والا کوئی بھی شخص معاشرے میں ہماری ستائش کے بغیر نہ رہے، کیونکر تجدید اور احیاء کے سارے خطابات بلا مقابلہ صرف چند خاندانوں، جماعتوں کے امیروں، اور انکی آل اور اولاد تک محدود رہیں؟ اگر آپ اچھا کرنے والے افراد کے لیے ایک خوشگوار، سازگار، مزید ترقی دینے والا ماحول فراہم نہیں کر سکتے تو پھر زیادہ امیدیں نہ رکھیں، ایک آدھ ہزار سال میں آپ کے حالات بدل جائیں گے کیونکہ اس وقت ہمارے اور آپ جیسے بے عمل، ہے حوصلا، اور ہے حس مسلمان دنیا سے ختم ہو چکے ہوںگے!