بین المذاہب شادیاں اور ہمارا دوہرا معیار
تحریر:گلزارصحرائی
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ معاشرے میں انسان جب مادی طورپر زیادہ ترقی کرلیتاہے تو وہ سب سے پہلے جس چیز کو غیر اہم قرار دیتا ہے وہ مذہب ہے۔ کچھ لوگ تو پوری جرأت اور جسارت کے ساتھ مذہب کا انکار کردیتے ہیں اور کچھ کھل کر انکار تو نہیں کرپاتے مگر عملاً اس کے منکر ضرور ہوتے ہیں اور اس کے برخلاف خود کو سیکولر کہلانا زیادہ بہتربلکہ شان کی بات سمجھتے ہیں۔اکثر ایسے لوگوں کو دیکھا ہےکہ وہ اپنے اس سیکولرزم کو عملاً ثابت کرنے کے لیے شریک حیات کا انتخاب کسی دوسرےمذہب سے کرتے ہیں تاکہ انھیں فی الواقع مذہبی حدبندیوں سے بہت ’بلند‘ سمجھا جائے۔جیسا کہ میں نے ابتداءً عرض کیاکہ سیکولر نظرآنے کی یہ بیماری عام طور پربہت امیر کبیر اور مادی طور سے بہت اعلیٰ طبقے (Elite class) میں پائی جاتی ہے، جس کی واضح اور نمایاں مثال ہم کو فلمی دنیا سے متعلق شخصیات میں مل جاتی ہیں۔ جدھرنظر اٹھاکر دیکھیے، ہم کو ایسےجوڑے نظر آجائیں گے، جن میں فریقین الگ الگ ’مذاہب’ سے تعلق رکھتے ہیں۔
اگرچہ اس کا زیادہ اثر نمایاں شخصیات (Celebrities) میں پایا جاتا ہےمگر ان کی تقلید میں اور بعض مذہبی پیشواؤں کی جانب سے مذہبی خیر سگالی کے نام پر مبہم اور نام نہاد ’گنگاجمنی تہذیب‘ کے برابر پرچار سے متاثر ہوکر بھی یہ رجحان اب نمایاں شخصیات سے ہٹ کر عام سماج میں بھی گھر کرنے لگا ہے۔جس کے تعلق سے بھی خبریں میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔
جب بھی اس طرح کی کوئی شادی وقوع پذیر ہوتی ہے، سوشل میڈیا پر موضوع بحث بن جاتی ہے۔غیروں کا اس پرجو ردِ عمل ہوتاہے وہ تو ان کا فطری عمل ہے کہ ان کےنزدیک ’ناری جاتی کاکوئی دھرم نہیں ہوتا، شادی کے بعد اس کے پتی کا دھرم ہی اس کا دھرم ہوتا ہے‘۔ اس اصول کے تحت اگر وہ کسی ہندو لڑکی کی جانب سے مسلم لڑکے سے شادی کرنے پر ہنگامہ کرتے اور اسے ’لوجہاد‘ جیسا الزام دیتے ہیں، نیز اس کے برخلاف کسی مسلم لڑکی کی ہندو لڑکے سے شادی پر خوشیاں مناتے اور اسے گویا بہت بڑی فتح قرار دیتے ہیں تو یہ ان کی فطرت کے عین مطابق ہے۔
لیکن ہم مسلمانوں —خصوصاً مسلم نوجوانوں— کا جو ردِ عمل سامنے آتاہے، افسوس کی بات ہے کہ وہ بھی غیروں سے مختلف نہیں ہوتا۔ ہمارے مسلم نوجوان بھی کسی نام نہاد ہندو لڑکی کی کسی نام نہاد مسلم لڑکے سے شادی پر ایسی ہی خوشی کا اظہار کرتے ہیں گویا مسلم معاشرے نے کوئی جنگ جیت لی ہو۔ اس کی نظیریں دیکھنا ہوتو سوناکشی سنہا اور ظہیر اقبال کی شادی یا سورا بھاسکر اور فہد احمد سےمتعلق پوسٹوں پر مسلم نوجوانوں کے کمینٹ دیکھ لیں۔ ہمارے نوجوانوں کی گویا باچھیں کھلی پڑتی ہیں، اس کے برخلاف صورت حال ہو تو وہ مخالف مذہب والوں پر ’لوجہاد‘ کے مقابلے پر ’لو یدھ‘ جیسا الزام تو نہیں لگاتے مگر چپی ضرور سادھ لیتے ہیں۔حالاں کہ اسلام کی روسے دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں ہی ناقابل قبول ہیں اس لیے کہ قرآن نے اس سلسلے میں واضح حکم دے دیاہے:وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتّـٰى يُؤْمِنَّ ۚ وَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْـرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّّلَوْ اَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّـٰى يُؤْمِنُـوْا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْـرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ ۗ اُولٰٓئِكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ۖ وَاللّـٰهُ يَدْعُوٓا اِلَى الْجَنَّـةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖ ۖ وَيُبَيِّنُ اٰيَاتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُـمْ يَتَذَكَّرُوْنَ (221)
’’اور مشرک عورتیں جب تک ایمان نہ لائیں ان سے نکاح نہ کرو، اور مشرک عورتوں سے ایمان دار لونڈی بہتر ہے گو وہ تمہیں بھلی معلوم ہو، اور مشرک مردوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لائیں، اور البتہ مومن غلام مشرک سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں اچھا ہی لگے، یہ لوگ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ جنت اور بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے، اور لوگوں کے لیے اپنی آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‘‘(سورہ بقرہ:221)
اس آیت کی روسے اسلام کے نزدیک ایسی کوئی بھی شادی جائز نہیں ٹھہرتی جس میں زوجین میں سے ایک مسلم ہو اور دوسرا غیر مسلم، قطع نظر اس سے کہ وہ غیر مسلم لڑکی ہو یا لڑکا۔ (اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت کا ایک استثنا ضرور ہے، لیکن وہ یہاں زیر بحث نہیں ہے) مسلم نوجوانوں کے بارے میں تو عام طور پر یہ سمجھا جاسکتا ہے اور کہابھی جاتا ہے کہ ان کی اکثریت دین اسلام سے ناواقف ہے، لیکن حیرت اور افسوس تو ان مذہبی اور ملی رہنماؤں پر ہوتا ہے جو اسلام کی تعلیمات سے واقفیت رکھتے ہوئے بھی غالباً قومی جذبے سے ہی مغلوب ہوکر ان معاملوں میں دانستہ یا نادانستہ دوہرے معیار کاشکار ہوجاتے ہیں۔چنانچہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ارتداد سے متعلق جتنے مضامین شائع ہوتے ہیں ان میں مسلم لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکوں سے شادی کے واقعات کو بنیاد بناکر تشویش ظاہر کی جاتی ہے اور اس کے تدارک کی تدابیر