ایران نے گزشتہ دنوں اسرائیل پر تین سو سے زیادہ ڈرونز اور میزائل داغے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ ناکام بنا دیے گئے۔ ان حملوں کے فوراً بعد یہ خبر گرم ہو گئی کہ میزائلوں کو مار گرانے اور ایرانی حملوں کو ناکام بنانے میں اردن کے شاہ عبداللہ ثانی کی حکومت نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
اردن میں کئی مقامات پر حکومت کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا خاص طور پر ایکس پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی ایک پوسٹ میں کہا گیا، ”اردن کے بادشاہ نے اسرائیل کو بچانے کے لیے اپنے ہی شہریوں پر میزائل گرا دیے۔‘‘ اس پوسٹ کے ساتھ ایک تصویر بھی شائع کی گئی ہے، جس میں اسرائیلی سرحد کے قریب ہی واقع اردن کے شہر کرک میں ایک ڈرون کے ملبے کو دیکھا جاسکتا ہے
ایک اور شخص نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا، ”اردن ہمیشہ کی طرح پیسے کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔‘‘ ایک دوسرے سوشل میڈیا صارف نے لکھا، ”اپنے ہی شہریوں پر میزائل برسانا غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے۔‘
اس ساری صورتحال میں بہت سی غلط معلومات بھی پھیلائی جا رہی ہیں۔ مثلاً یہ کہ ان کارروائیوں میں اردن کے شاہ اور ان کی بیٹی نے، جو پائلٹ بھی ہیں، ذاتی طور پر شمولیت کی۔ بعض لوگوں نے کہا کہ ایکس پر جس ملبے کی تصویریں شائع کی گئی ہیں وہ کسی ڈرون کا نہیں بلکہ کئی ہفتے قبل آتش زدگی میں تباہ ہو جانے والے آئل ٹینکروں کا ہے
یہ الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں کہ اردن کی حکومت نے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت انہیں اردن کے فضائی حدود کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
اردن میں ہر پانچ میں سے ایک فرد، بشمول ملکہ، فلسطینی نژاد ہے اور بیشتر کی فلسطینی معاملے سے دلی وابستگی ہے۔ ایسے لوگ اردن کے ایسے اقدامات کو غداری کے طور پر دیکھتے ہیں۔
حکومت کے عتاب کا نشانہ بننے کے خوف سے صرف اپنا پہلا نام بتانے والے ایک سیاسی کارکن حسین کا کہنا تھا، ”میں بہت پریشان ہوں کہ اردن نے اسرائیل کا دفا ع کیوں کیا۔ یہاں بہت سے لوگوں کو یہ منظور نہیں ہے۔ ہم ایران کی حمایت نہیں کرتے لیکن ہم غزہ میں اسرائیل کو روکنے والے کسی بھی اقدام کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘
اردن کی حکومت نے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں یہ اقدامات کیے۔ اس نے اردن کے فضائی حدود میں داخل ہونے والی اشیاء کو روکا، ”کیونکہ وہ ہمارے شہریوں اور آبادی والے علاقوں کے لیے خطرہ تھیں۔‘‘
اردن کے دارالحکومت عمان میں مقیم ایک سابق سینیئر افسر اور فوجی امور کے ماہر محمود ردسات نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ اختتام ہفتہ پر جو کچھ ہوا، اسے ”اسرائیل کے دفاع کے طورپر نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ اس کا مقصد اردن کی خود مختاری اور قومی فضائی حدود کا دفاع کرنا تھا۔‘‘ انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ”آپ کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ڈرون یا میزائل کہاں گرنے والا ہے۔‘‘اسرائیلی میڈیا میں شائع ان خبروں کے متعلق کہ اسرائیلوں نے اردن کے فوجی تعاون پر حکومت کا شکریہ ادا کیا اور جشن منایا، محمود ردسات کہتے ہیں، ”یہ اسرائیلی پراپیگنڈا سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
دریں اثنا سعودی نیوز ویب سائٹ العربیہ نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے اس بات کی تردید کی ہے کہ ہفتے کے روز اسرائیل پر ایرانی حملوں کو روکنے میں سعودی عرب نے حصہ لیا تھا۔
قبل ازیں اسرائیلی نیوز ویب سائٹس نے سعودی عرب کی ایک سرکاری ویب سائٹ سے منسوب کر کے ایسے بیانات شائع کیے تھے کہ ”(سعودی) مملکت نے ایرانی حملوں کا سامنا کرنے والے حالیہ دفاعی اتحاد میں حصہ لیا۔