کیا سماجوادی لیڈر محمد اعظم خان کی طرح ضیاء الرحمان برق بھی مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔ یہ سوال آج سنبھل میں تقریباً ہر کسی کے لبوں پر ہے کیونکہ ضیاء الرحمن برق پر ایک کے بعد ایک سنگین الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ان پر سنبھل کی جامع مسجد میں تشدد میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ ایس آئی ٹی سنبھل تشدد کے پیچھے سازش کی جانچ کر رہی ہے اور اب اس کی آنچ برق تک بھی پہنچتی دکھائی دے رہی ہے۔
ایس آئی ٹی نے حال ہی میں ضیاء الرحمن برق سے 3 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی۔ ان پر گرفتاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ جانچ کے دوران ایس آئی ٹی یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ تشدد کے پیچھے برق کا ہاتھ تھا یا نہیں۔ اس سے قبل سنبھل میں ضیاء الرحمان کے پرائیویٹ گھر میں بجلی چوری کے کیس درج ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ نقشے کے بغیر کثیر المنزلہ مکان بنانے اور زمین پر قبضہ کرنے کا بھی مقدمہ درج ہے۔
•••برق پر گرفتاری کی تلوار
ایس پی رکن پارلیمان کئی الزامات میں گھرے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا لیکن ان کے خلاف ماحول ایسا ہے کہ کسی بھی وقت کوئی بڑی کارروائی ہوسکتی ہے۔ ان کے کیس کا موازنہ اعظم خان سے کیا جا رہا ہے کیونکہ ان پر بھی ایسے ہی الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ نہ صرف مدتوں سےجیل میں ہیں بلکہ سزا یافتہ بھی ہیں۔
اعظم خان پر 2013 کے مظفر نگر فسادات کی سازش رچنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ پھر 2017 میں جب یوگی حکومت بنی تو ان پر زمینوں پر قبضے سے لے کر بھینس چوری تک ہر چیز کا الزام لگا۔ یہی نہیں اعظم خان کے بیٹے عبداللہ اعظم پر دو برتھ سرٹیفکیٹ رکھنے، جوہر یونیورسٹی میں دشمن کی جائیداد ہتھیانے اور سرکاری اراضی ہتھیانے کا بھی الزام تھا۔ ان الزامات کی وجہ سے آج اعظم خان کی یہ حالت ہے۔ وہ نہ صرف جیل میں ہیں بلکہ ریاست اور رامپور میں ان کی سیاست بھی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
ضیاء الرحمان برق کے خلاف بھی اسی طرح کے مقدمات درج کیے جا رہے ہیں، جس سے سیاسی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا برق اگلے اعظم خان ہیں؟ تاہم دونوں رہنماؤں کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ضیاء الرحمن برق کے قد کاٹھ کا موازنہ اعظم خان سے نہیں کیا جا سکتا۔ اعظم خان سماج وادی پارٹی کے بانی ارکان میں سے ایک رہے ہیں۔ اتر پردیش کے مسلم عوام پر ان کا بہت اثر رہا ہے جبکہ ضیاء الرحمن برق ایک بار ایم ایل اے اور پھر پہلی بار ایم پی بنے ہیں۔ اعظم خان کا شمار اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کے پالیسی سازوں میں ہوتا ہے۔ وہ مسلم سیاست کے مرکز میں رہتے ہیں اور بی جے پی اور اپوزیشن جماعتوں کے نشانے پر بھی رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب اعظم خان سماج وادی پارٹی میں سب سے زیادہ بااثر شخص تھے اور پارٹی میں کوئی بڑا فیصلہ ان کی مرضی کے بغیر نہیں لیا جاتا تھا۔ اعظم خان کی خواہش کے بغیر اسمبلی سے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ٹکٹ نہیں دیئے گئے۔ لیکن وقت اور حالات نے سب کچھ بدل دیا۔ آج اعظم خان جیل میں ہیں اور ان کی سیاست آسمان سے زمین پر آچکی ہے۔ پارٹی میں بھی وہ محض ایک نمائش بن کر رہ گئے ہیں۔