تحریر :ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی
جب ستر سال سے غیروں کا مسلسل ووٹ بینک بننے کے باوجود صلے میں مظالم، لامتناہی فسادات اور حق تلفیوں کا سلسلہ جاری رہا تو چند غیور اور ملت کے خیر خواہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی سیاسی قیادت کی بات بلند کی تاکہ اقتدار میں حصہ داری کی کوشش کے ذریعے مظالم اور حق تلفیوں کا ازالہ یا تخفیف کی جاسکے۔ان کا مقصد غیروں کو نقصان پہنچانا یا ظلم کرنا ہرگز نہیں تھا بلکہ خود کو ظلم وناانصافی سے بچانا تھا جو ایک جائز بلکہ ضروری چیز تھی. مگر چونکہ مسلمان سب سے زیادہ مظلوم ہے اور ملت کے ان خیر خواہوں کی آواز مسلمانوں پر مظالم کے خلاف تھی لہٰذا عموماً مسلمان ہی متوجہ ہوئے۔ مسلم ووٹرز کو یرغمال بنانے والی چکور وعیار سیاسی پارٹیوں نے جب یہ صورتحال دیکھی اور مسلمانوں کا رجحان بڑھتا ہوا دیکھا تو ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی کیونکہ مفت میں ووٹ اور اس کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کا چسکا انہیں لگ گیا تھا۔اس صورتحال کو دیکھ کر اور زمین کھسکتی محسوس کرکے انہوں نے بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا میکانزم کا استعمال کیا جو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا. کھلاڑی اور گھاگھ، منافق وعیار تو وہ پہلے سے ہی تھے اب اور متحرک ہوگئے۔ منفی پروپیگنڈے اور ان مسلم سیاسی قائدین کے خلاف انہوں نے ایسا طوفانِ بدتمیزی کھڑا کیا اور ایسے ہتھکنڈے استعمال کیئے کہ الامان والحفیظ. حیرت ہے کہ سب سے بڑی سیاسی سیکولر کہلانے والی پارٹی جس نے مسلمانوں کے ووٹ سب سے زیادہ ہضم کیئے ہیں اس نے حالیہ مسلم مخالف دھرم سنسد تقریروں کے خلاف ایف آئی آر بھی کرائی تو چھانٹ کر صرف گاندھی جی کے خلاف بیان کو لیکر کرائی اور مسلمانوں کی نسل کشی کے بیان کو گول کردیا۔
اور دوسری پارٹیاں چُپی سادھ کر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو justify کررہی ہیں۔ یہ نفرت اور دوری بنانے کی انتہاء ہے۔ ایسی پارٹیوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ مسلم قیادت والی ان سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں پر بی جے پی کا ایجنٹ ہونے اور فرقہ پرست ہونے کے گھناؤنے الزامات لگائے اور ان کی خوب تشہیر کی اور مسلم ووٹرز کو کنفیوژ کرنا چاہا۔ ان کا یہ حربہ بہت حد تک کامیاب بھی رہا اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد غیر شعوری طور پر ان کے پروپیگنڈے کے زیرِ اثر آگئی اور نتیجۃً انہیں بھی وہ سیاسی مسلم قائدین بی جے پی کے ایجنٹ اور فرقہ پرست نظر آنے لگے اور وہ ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔
مسلم ووٹرز کے پرانے شکاریوں کی بات پر انہیں یقین ہونے لگا مگر افسوس صد افسوس کہ انہوں نے خود سے غور کرکے یہ نہیں دیکھا کہ ان کی ایجنٹی اور فرقہ پرستی کی دلیل اور ثبوت کیا ہے؟ ان پارٹیوں نے آسام کے حضرت مولانا بدر الدین اجمل قاسمی صاحب کو ایجنٹ اور فرقہ پرست کہا تاکہ ان کی قیادت ختم کرکے مسلمانوں کو بدستور اپنا ووٹ بینک بنائے رکھیں۔ مسلم آسامی ووٹرز کے درمیان ان کے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے پھیلائے اور دوسروں کو بھی استعمال کیا۔ یقیناً اس کے سخت نقصانات بھی ہوئے مگر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے جب دیکھا کہ ایجنٹ اور فرقہ پرستی کا کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ یہ شخص ہمارے انصاف کی آواز بلند کررہا ہے تو انہیں ووٹ دیئے اور بڑی کامیابی عطا کرائی. اس فہرست میں دوسرا نام بیرسٹر اویسی کا ہے، چونکہ اویسی صاحب حیدرآباد سے نکل کر دوسری جگہوں پر بھی سیاسی بیداری پیدا کررہے ہیں، پارلیمنٹ اور باہر مسلمانوں کے انصاف کے لئے اور ان پر مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے رہتے ہیں لہٰذا انہیں بھی بی جے پی کا ایجنٹ اور فرقہ پرست گھوشِٹ کرنا ضروری تھا اور وہ کردیا گیا تاکہ مسلمانوں کو ان سے متنفر کرکے ان کا ووٹ کاٹ دیا جائے، ایسی ووٹ کٹوا پارٹیوں نے یہ گندا گیم صرف اپنے مسلم ووٹ بینک کو بچائے رکھنے کے لئے کھیلا۔
جو دو الزامات یعنی بی جے پی ایجنٹ اور فرقہ پرست ان ووٹ کٹوا پارٹیوں نے مسلم قیادت والی سیاسی پارٹیوں پر لگائے اب تک کسی بھی الزام کو باوجود بسیار کوشش وہ ثابت نہ کرسکے لہٰذا جھوٹے پروپیگنڈے کو ہی مسلسل بکتے رہے تاکہ تواتر، تسلسل اور تکاثر کی وجہ سے دعویٰ ہی دلیل اور ثبوت نظر آنے لگے۔ کبھی ثبوت کے نام پر مضحکہ خیز باتیں کیں۔ دلیل اور ثبوت کے نام پر جب کچھ ہاتھ نہ لگا تو انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اگر یہ سیاسی قائدین بی جے پی کے ایجنٹ نہ ہوتے تو ضرور بی جے پی ان کو گرفتار کرچکی ہوتی اور وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے مگر ایسا ان مسلم قائدین کے ساتھ نہیں ہوا اور وہ صحیح سالم ہیں لہٰذا صاف ثابت ہوا کہ وہ ایجنٹ ہیں۔ اس دلیل کے بودے پن پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ انہیں یہ کون بتائے کہ کبھی مخالف کے لاکھ حربوں کے باوجود تقدیر اس کی حفاظت کرتی رہتی ہے۔ اسباب کی دنیا کے اعتبار سے اگر بات کی جائے تو مولانا بدر الدین صاحب بھی محتاط اور کم گفتگو کرتے ہیں اور محتاط وقانونی دائروں میں اپنے کام انجام دیتے ہیں لہٰذا ان کا محفوظ رہنا ایجنٹ ہونے کی دلیل ہرگز نہیں ہوسکتی۔
اسی طرح اویسی صاحب لندن سے بیرسٹر ہیں، قانون کے ایکسپرٹ ہیں لہٰذا باوجود بہت ساری تقریروں کے وہ کوئی بات خلافِ قانون نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے قانون کا ہاتھ ان تک نہیں پہنچ سکا، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ فرقہ پرستی کی بات کرتے ہیں جب ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ بہار، بنگال اور یوپی وغیرہ کی سیکڑوں تقریروں میں ایک دو باتیں بھی پیش کردیں جن میں بیرسٹر اویسی صاحب نے کسی بھی فرقے کے خلاف کہی تو وہ عاجز ودرماندہ ہوجاتے ہیں۔ مگر اس وقت کے بعد پھر وہی فرقہ پرستی کے الزام کا راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں۔ ان کی اس حرکت کو کیا نام دیا جائے سمجھ میں نہیں آتا۔
ایک الزام یرغمالی پارٹیوں اور ان کے ہم سُروں کا یہ بھی ہے کہ اویسی صاحب جہاں الیکشن لڑتے ہیں وہاں بی جے پی کو فائدہ ہوتا ہے لہٰذا وہ ایجنٹ ہیں۔ اولاً تو بالفرض اگر فائدہ بھی ہوجاتا تب بھی یہ الزام درست نہیں ہے ورنہ کانگریس، راشٹریہ جنتادل وغیرہ سب ایجنٹ کہلائیں گے اور ثانیاً حقیقت الزام کے برعکس ہے۔مگر چونکہ یہ الزام یرغمالی پارٹیوں کی طرف سے برابر دہرایا جاتا ہے لہٰذا بعض لوگ جھانسے میں آجاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بہار میں جب وہ الیکشن میں اترے تو بی جے پی کو فائدہ ہوگیا جبکہ یہاں بھی حقیقت برعکس ہے. حقیقت یہ ہے کہ بہار میں بی جے پی کا ووٹ پہلے سے بھی کم ہوگیا۔ کہا گیا کہ بنگال میں بھی فائدہ ہوا مگر اس کی حقیقت بھی کچھ نہیں۔ ان سے جب پلٹ کر سوال کیا جاتا ہے کہ اویسی صاحب گزشتہ مرتبہ یوپی کے الیکشن میں نہیں تھے اس کے باوجود بی جے پی کو اتنی بڑی جیت کیسے حاصل ہوگئی تو جواب خاموشی اختیار کرکے دیتے ہیں۔
میں ایسے مسلمانوں سے درخواست کرنا چاہوں گا کہ وہ ووٹ کٹوا پروپیگنڈائی پارٹیوں کے چکر میں نہ پڑیں جو ووٹ ہمیشہ لیکر گھاؤ ہی دیتی رہی ہیں۔ انہیں چاہئے کہ مولانا بدر الدین صاحب یا اویسی صاحب پر جھوٹے الزامات نہ لگائیں جن کا وہ ثبوت یا دلیل نہ رکھتے ہوں۔ ان پارٹیوں کے نفسیاتی حصار اور گھیرابندی سے باہر نکلیں، 70 سالہ روایتی پرانی ڈگر سے گریز کریں اور جہاں جہاں مسلم قیادت کی کامیابی ممکن نظر آئے وہاں انہیں ضرور ووٹ دیں اور جہاں ایسا ممکن نظر نہ آئے وہاں اخف الاضرار کو ووٹ دیں. یوپی میں اسمبلی حلقوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جہاں مسلم قیادت کو کامیاب بنایا جاسکتا ہے اور سیاسی حصہ داری کے ذریعے مسلمانوں پر ظلم وستم کو کم کیا جاسکتا ہے، یہاں یہ بات بہت اچھی طرح واضح رہے کہ مسلم قیادت کو ووٹ دینے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ برادرانِ وطن پر ظلم ڈھایا جائے یا ان سے نفرت کیا جائے بلکہ صرف یہ ہے کہ خود کو ظلم سے بچایا جائے۔ اسلام کی تعلیم ہے اور معقول ومنصفانہ تعلیم ہے کہ لا ضررَ ولا ضِرارَ یعنی نہ نقصان پہنچاؤ اور نہ نقصان اٹھاؤ۔ یقیناً برادرانِ وطن بھی ہمارے وطنی بھائی ہیں، ان سے اچھا سلوک ہمارا دینی فریضہ ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)