لبنان پر اسرائیل کی پچھلی جنگ کے تقریباً دو دہائیوں بعد اسرائیل اور حزب اللہ ایک بار پھربرسرپیکار ہیں۔ گذشتہ جنگ سے دونوں نے سبق سیکھا اور اس کے تجربے کی روشنی میں دوںوں موجودہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ دونوں کے پاس ایک دوسرےکو نقصان پہنچانے کے مواقع ہیں اور بہت کچھ کھونے کا بھی ڈر ہے۔البتہ پچھلی جنگ کی نسبت اس بار حزب اللہ کے لیے مشکلات زیادہ ہوسکتی ہیں۔
اگر زمینی جنگ شروع ہوتی ہےتو اس سے دونوں فریق ایک دوسرے سے خوف زدہ ہیں۔دونوں متحارب فریقوں کے درمیان اگر زمینی جنگ ہوتی ہے تو شاید ایک مختلف کہانی ہوگی۔ ’وال سٹریٹ جرنل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق حزب اللہ جو تقریباً ایک سال سے اسرائیل میں اہداف کو باقاعدگی سے نشانہ بنا رہی ہے، میزائلوں، ڈرونز اور ٹینک شکن میزائلوں کا ایک بڑا ذخیرہ رکھتی ہے جسے وہ اسرائیلی زمینی پیش قدمی کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔
*ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس کے میدان میں اسرائیلی برتری
حزب کے پاس اس کے سب سے خطرناک نئے ہتھیاروں میں سے ایک ایرانی ساختہ ٹینک شکن گائیڈڈ میزائل ’الماس‘ ہے جو حزب اللہ کو اس کے حملوں میں اس سے کہیں زیادہ درستگی کے ساتھ نشانہ بنانے میں مدد دے گا۔ اس طرح حزب اللہ سنہ 2006ء میں اسرائیل کے ساتھ لڑی گئی پچھلی جنگ کی نسبت زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں اسرائیل نے حزب اللہ پر فضائی حملوں اور ریموٹ کنٹرول دھماکوں کے ذریعے تباہ کن حملے شروع کیے ہیں جنہوں نے لبنانی مسلح گروپ کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا۔ اسرائیل کے یہ حملے انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے اور ٹیکنالوجی میں اسرائیل کی وسیع برتری کا مظہر ہیں۔
سنہ 2006ء کے موسم گرما میں لبنان جنگ کے آخری دنوں میں اسرائیل کے بھاری ہتھیاروں سے لیس مرکاوا ٹینکوں کی دھواں دار باقیات جو دنیا کے بہترین ٹینکوں میں شمار کیے جاتے ہیں پورے خطے میں ایک طاقتور علامت بن گئے تھے۔
حزب اللہ کے ہلکے ہتھیاروں سے لیس جنگجو جن میں فوجی اور تکنیکی برتری نہیں تھی جنگ سے کمزور تو نکلے، لیکن شکست نہیں ہوئی۔
*دنیا میں سب سے زیادہ مسلح غیر ریاستی ملیشیا
حزب اللہ جو 1980ء کی دہائی میں خانہ جنگی کے انتشار میں قائم ہوئی تھی گذشتہ آٹھ سالوں میں نہ صرف اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے کو دوبارہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے بلکہ اس میں نمایاں اضافہ بھی کیا ہے۔ اب اسے دنیا کی سب سے زیادہ مسلح غیر ریاستی ملیشیا میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
اخبار’ٹائمز‘ کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق مثال کے طور پر اسرائیل کے پاس دسیوں ہزار فوجیوں کی نفری ہے اور اندازے بتاتے ہیں کہ اس کے پاس 150,000 سے زیادہ میزائل اور ہر قسم کے ہتھیار ہیں۔اسرائیل نے حزب اللہ کی انٹیلی جنس معلومات کے لیے برسوں کا وقت صرف کیا ہے۔
اخبار نے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ RUSSI) ) میں ملٹری سائنس کے ڈائریکٹر میتھیو ساویل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے باوجود حزب اللہ کو کم زور سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے
اسرائیل فضا کے ذریعے بہت کچھ حاصل نہیں کر سکتا، خاص طور پر جب وہ چھوٹے، آسانی سے نقل و حمل کے قابل راکٹ لانچروں سے نمٹ رہا ہو اور جب یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ حزب اللہ کا زیادہ تر انفراسٹرکچر زیر زمین ہے۔
رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ "اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ زمینی حملے کسی بھی شکل میں تیزی سے ناگزیر ہیں- ایک ایسا اقدام جس کے بارے میں لبنان نے متنبہ کیا ہےاگر زمینی لڑائی شروع ہوتی ہے تو خطے کے مسلح عناصر اس میں کود سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق عسکری تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ اسرائیل کی طرف سے "حماقت” ہوگی کیونکہ یہ غیر روایتی اورروایتی حکمت عملیوں پر مشتمل ایک غیر متناسب جنگ کا باعث بنے گی جہاں حزب اللہ کو فوجی فائدہ حاصل ہے۔
درحقیقت حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ جنوبی لبنان پر اسرائیلی حملہ ایک خطرہ نہیں بلکہ ایک "تاریخی موقع” ہے۔
ماہرین کے مطابق حزب اللہ اس معاملے میں عسکری طور پر سبقت لے جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگراسرائیل ہماری سرزمین پر آنے کا فیصلہ کرتا ہے اسے اپنے فوجیوں کی لاشیں اورزخمیوں کے سوا کچھ نہیں ملے گا‘‘۔
ٹائمز نے ایک عرب- یہودی اسرائیلی تجزیہ کار ایلون میزراہی کے حوالے سے کہا کہ حزب اللہ کا مقصد "اسرائیل کو جنوبی لبنان کے جہنم میں پھنسانا ہے۔ شاید اس دنیا میں کہیں بھی گوریلا جنگ کے لیے سب سے زیادہ پرعزم مسلح اور حکمت عملی سے لیس تھیٹر لبنان میں حزب اللہ کا ہوسکتا ہے”۔
ہاڑیوں اور وادیوں کے ساتھ یہ خطہ حزب اللہ کےلیے جنگ میں موزوں ہے، اور جنوبی لبنان کسی بھی حملہ آور فوج کے لیے ایک خاص چیلنج ہے۔ یہ علاقہ کسی بھی مسلح ملیشیا کے لیے مفید ہے خاص طور پر جس نے کئی دہائیوں سے اس علاقے میں اپنے اڈےمضبوط بنانے پر گذارے