تحریر: اپوروانند
ہمیں، ہندوستان کے لوگوں کو نفرت اور تشدد کی عادت ڈالی جا رہی ہے ۔ اس تشدد کے تناظر میں تین طرح کے لوگوں میں ہندوستانی سماج تقسیم ہو گیا ہے ۔ ایک جو نفرت انگیز پروپیگنڈہ اور تشدد میں شامل ہیں ۔ اس میں بھی دو طرح کے لوگ ہیں ۔ ایک جو اس کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور محفوظ رہتے ہیں ، دوسرے جو اس میں سرگرم طور سے شامل ہوتے ہیں ،جنہیں اس تشدد کے پس منظر کا علم نہیں لیکن جو مانتے ہیں کہ اس کا فیصلہ انہوں نے ہی کیا ہے ۔
تشدد انہیں طاقتور ہونے کا احساس یا وہم بھی دیتا ہے۔ چونکہ وہ بلا روک ٹوک تشدد کر سکتے ہیں، اس لیے وہ بجا طور پر محسوس کرتے ہیں کہ راج ان کا ہے۔ ان کے پاس تعداد کی طاقت ہے، ان کے پاس ہتھیاروں کی طاقت بھی ہے۔ لیکن بعض اوقات وہ قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں۔
ایک اور قسم کے لوگ ہیں جو اس تشدد کو تربیت دیتے ہیں۔ وہ اسے ہاتھ نہیں لگاتے لیکن متشدد ذہنوں کو تیار کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ وہ کبھی بھی براہ راست تشدد میں ملوث نہیں ہوتے، وہ قانون کے دائرے سے باہر رہتے ہیں۔ ان کی وجہ سے تشدد کا دائرہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنہیں اس تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ہر کچھ دن پر، تھوڑے تھوڑے وقفہ پر نفرت اور تشدد جھیلتے ہوئے ان میں احساس کمتری پیدا ہونے لگاہے ۔ غصہ بیکار ہوتا ہے کیونکہ اس کے اظہار کا موقع نہیں ملتا۔وہ اپنے اوپر ہونے والے تشدد کا بدلہ نہیں لے سکتے کیونکہ اسے غیر قانونی سمجھاجائے گا ۔ جرم بھی ۔
اس طرح تشدد کا شکار یہ معاشرہ خود کو بے اختیار محسوس کرنے لگتا ہے۔ طاقت کے باوجود خود کو نہ بچانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے بسی خودکشی کی مایوسی کو بھر دیتی ہے۔ یہ معاشرہ سکڑنا شروع ہو جاتا ہے اور انسانیت زندہ رہنے کے صرف راستے تلاش کر رہی ہے۔
یہ خیال کہ اس کی زندگی مکمل طور پر متشدد لوگوں کی مرضی پر ہے اس کی آنکھوں میں خود کو ڈالتا ہے۔ ایسے لوگ بھی اس معاشرے میں پیدا ہوتے ہیں جو تشدد کے مرتکب افراد کی مہربانی سے محفوظ اور آرام دہ زندگی تلاش کرتے ہیں۔ وہ اپنے معاشرے میں حقیر رہتے ہیں اور اس کی وجہ سے اور بھی زیادہ پرتشدد ہو جاتے ہیں۔
ایسے لوگ بھی اس معاشرے میں داخل ہو جاتے ہیں جو اس تشدد کی وجہ اپنے اندر تلاش کرنے لگتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ انہیں تشدد کا شکار ہونا پڑا؟ کیا اس کی وجہ ان کے اندر نہیں ہے؟ کیا وہ تشدد کو ہوا نہیں دے رہے؟
تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو زیادہ تر اسی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے ارکان تشدد کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ تشدد سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ نفرت کو ناپسند کرتے ہیں۔ نفرت اور تشدد نہ ہوتا تو ان کی زندگی بہتر ہوتی۔ لیکن وہ ہے اور اس میں شامل لوگوں کے ساتھ ان کا سطحی یا گہرا تعلق ہے۔ وہ اس تشدد کی مخالفت کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کے خاندان، بھائیوں میں نفرت اور تشدد کو سہارا دیا جاتا ہے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ وہ نفرت اور تشدد کی مخالفت کرنے سے کتراتے ہیں۔
نفرت اور تشدد کی حمایت اس قدر فصیح و بلیغ ہے کہ اس کی مخالفت تو دور کی بات، اس پر تنقید کرنے میں تنہا ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے وہ نفرت اور تشدد کے خلاف ہوتے ہوئے بھی ایسا ہوتا دیکھتے رہتے ہیں۔ کیا وہ اس کا حصہ ہیں؟ کیا اس کی مزاحمت نہ کر پانا ان میں بھی احساس جرم پیدا کرتا ہے؟ اس جرم پر قابو پانے کے لیے وہ تشدد کو قانونی شکل دینے کا لالچ بھی رکھتے ہیں۔
اس گروہ کے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بننے والوں سے ہمدردی ہے۔ وہ اس ہمدردی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، وہ کرتے ہیں۔ لیکن اس کے اندر ایک بے بسی ہے اس لیے اس کی ہمدردی غیر فعال نظر آتی ہے۔ کیا تشدد کے متاثرین کو اس ہمدردی کا شکر ادا کرنا چاہیے؟ وہ تشدد کے متاثرین کے ساتھ دوستی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ رشتہ دوستی اور برابری کا نہیں ہو سکتا۔ اس طرح تشدد کا کلچر جڑ پکڑتا ہے۔ سماجی تعلقات تشدد سے ہی بنتے ہیں۔
انسانی تعلق کے معنی ہی پرتشدد تعلقات بن جاتے ہیں۔ انسانی رشتوں کی فطری حیثیت کا کھو جانا معاشرے کے لیے سب سے بڑا حادثہ ہے۔
تشدد سے بدتر ہو تی زندگی
تشدد کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ بھاگلپور، نیلی، گجرات، بھونڈی، مظفر نگر جیسے تشدد کے بڑے واقعات کے بعد، تشدد کی یہ تینوں برادریاں ایک دوسرے سے مزید دور ہو جاتی ہیں۔ اخباری اور سرکاری زبان میں حالات بھلے ہی معمول پر آ گئے ہوں لیکن تشدد سے پہلے جیسی صورتحال کبھی نہیں ہو سکتی۔ تشدد کا نشانہ بننے والوں کی زندگیاں بالکل بدل جاتی ہیں۔ موت، جسمانی نقصان کے علاوہ ذریعہ معاش کی تباہی۔ اس کے علاوہ انہیں انصاف کے لیے حکومتوں پر دھکے کھاتے رہنا پڑتا ہے۔ یعنی مقدمات طویل عرصے تک چلتے رہتے ہیں۔
ظلم کرنے والوں کے ساتھ رہنے کی مجبوری۔ یہاں تک کہ انہیں پڑوسی سمجھنا۔ اپنے خلاف تشدد کرنے والوں کو پڑوسی نہ سمجھنے پر ان کی مذمت کی جاتی ہے۔ پرتشدد کمیونٹی دھمکی آمیز لہجے میں معافی مانگتی ہے۔ اگر اسے ‘معاف نہیں کیا جاتا تو وہ زیادہ متشدد ہو سکتا ہے۔ تشدد کا نشانہ بننے والوں کا انصاف کا مطالبہ ضدی دکھائی دے رہا ہے۔ ایسی ضد جو کبھی امن قائم نہیں ہونے دے گی۔اس طرح تشدد کا نشانہ بننے والوں کو معاشرے میں تناؤ کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ وہ ماضی کو نہیں بھول سکتے۔ ہمیشہ شکار کی بے بسی کو پہننا چاہتا ہوں۔ اس کے گھٹیا رویے کی وجہ سے تشدد کے مرتکب امن سے نہیں رہ پاتے۔ اور ان میں تشدد نئے سرے سے جنم لیتا ہے یا پہلے والے تشدد کو جائز بنیاد مل جاتی ہے۔
تشدد کا مرتکب ہمیشہ شکار گروپ میں تشدد کی وجوہات تلاش کرتا ہے۔ وہ اسے اپنے تشدد کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
لسانی تشدد
جب تشدد جسمانی نہیں ہوتا تو اسے زبان کے ذریعے جاری رکھا جاتا ہے۔ اسے علامتی، علامتی انداز میں برقرار رکھا جاتا ہے۔ اس تشدد کو تشدد نہیں سمجھا جاتا، جیسا کہ دہلی پولیس کے حالیہ حلف نامے سے ظاہر ہے، یہ جذبات اور خیالات کا اظہار سمجھا جاتا ہے۔ صرف وہ لوگ جو اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
کیونکہ اس کا برابری سے جواب دینا ممکن نہیں ، اگر کوئی جواب دے تواسے ضرور سزا دی جاتی ہے ۔ بھارت میں اس کی مثالیں ہیں ۔
دنیا کے دوسرے ممالک میں اورتاریخ میں اس کے کئی مثالیں ہیں کہ تشدد کے چکر میں پھنس جانے کے بعد نکالنے کے لئے بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے ۔ کیا بھارت اس چکر میں پھنس گیا ہے یا ابھی بھی اسے وہ توڑ سکتا ہے ؟
(بشکریہ: ستیہ ہندی ڈاٹ کام )