تحریر:یوسف انصاری
تمام پارٹیوں نے اپنے پیادوں یعنی امیدواروں کو اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کے بساط پر کھڑا کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسد الدین اویسی نے اپنی پارٹی کے17 امیدواروں کے ناموں کا اعلان بھی کردیا ہے۔ اس سے کئی سیٹوں پر اکھلیش یادو کے اتحاد کی مشکلات میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔
ابھی سے ایسا لگتا ہے کہ اویسی مغربی اتر پردیش کے کئی اضلاع میں اکھلیش کا کھیل خراب کر سکتے ہیں۔ اتوار کو اسد الدین اویسی نے اپنی پارٹی کے 9 امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کی۔ اس میں تمام امیدوار مسلمان ہیں۔
پیر کو انہوں نے مزید 8 امیدواروں کی فہرست جاری کی۔ اس میں پنڈت منموہن جھا کے علاوہ، جنہیں صاحب آباد سیٹ سے نامزد کیا گیا تھا، باقی تمام سات امیدوار مسلمان ہیں۔
حالانکہ اویسی یوپی میں ’ونچیت سماج سمیلن‘ کر رہے ہیں۔ وہ دلتوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے لیے مسلمانوں کے ساتھ مل کر لڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن ان کی پارٹی نے ابھی تک ریزرو سیٹ پر ایک بھی امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے۔
مسلم امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ
اویسی کی پارٹی کے امیدواروں کے نام سامنے آنے کے بعد کئی سیٹوں پر دلچسپ مقابلے کے امکانات ہیں۔ جہاں غازی آباد کی لونی اسمبلی سیٹ پر ایس پی، کانگریس اور اویسی کی پارٹی کے مسلم امیدواروں کا ٹکراؤ ہوگا۔ دوسری طرف ہاپوڑ ضلع کی دھولانہ سیٹ پر ایس پی، بی ایس پی اور مجلس کے مسلم امیدوار ایک دوسرے سے مقابلہ کررہے ہیں۔
گڑھ مکتیشور میں بی ایس پی کے محمد عارف مجلس کے فرقان چودھری سے مقابلہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ میرٹھ کی کٹھور سیٹ پر مجلس کے امیدوار تسلیم احمد نے ایس پی کے شاہد منظور کی مشکلات بڑھا دی ہیں۔ شاہد منظور اکھلیش حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں۔
سیوال خاص پر مجلس کے رفعت علی بی ایس پی کے مکرم علی عرف ننھے خان کے راستے میں رکاوٹ بنتے نظر آرہے ہیں۔ ان سیٹوں پر ایس پی آر ایل ڈی اتحاد اور بی ایس پی کی بڑھتی ہوئی مشکلات سے بی جے پی کو بڑی راحت ملتی نظر آرہی ہے۔
کئی نشستوں پر پہلے اترے امیدوار
اویسی نے سہارنپور کے بیہت میں امجد علی اور سہارنپور نگر میں مرغوب حسن کو میدان میں اتار کر اپنے ارادوں کو واضح کر دیا ہے۔ ان سیٹوں پر نہ توایس پی- آر ایل ڈی نے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں، نہ بی ایس پی یا کانگریس نے۔ ان نشستوں پر مجلس کے امیدوار سامنے آنے کے بعد ان دونوں کے سامنے امیدواروں کے انتخاب کا چیلنج بڑھ گیا ہے۔ دوسری لسٹ میں اویسی نے بریلی ضلع کی برولی اور بیتھری چین پور ،فرخ آباد کی بھوجپور ، جھانسی کی ببینا، ایودھیا کی رودولی سیٹ پر اپنے امیدوار پہلے ہی اتار دیےہیں۔
ان سیٹوںپر ایس پی اتحاد، بی ایس پی اور کانگریس نے ابھی تک اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیے ہیں۔ بلرام پور کی اترولا سیٹ سے اویسی نے پیس پارٹی کے ریاستی صدررہے ڈاکٹر عبدالرحمان کو میدان میں اتارا ہے۔ یہاں وہ فارمولیشن بگاڑ سکتے ہیں۔
مظفر نگر: اتحاد سے مسلمان ناراض
ایس پی آر ایل ڈی اتحاد کو امید تھی کہ اسے مظفرنگر سمیت صلع میں جاٹ- مسلم اتحاد کا فائدہ ملےگا،لیکن خبریں آر ہی ہیں کہ مظفرنگرکےمسلمان اس اتحاد سے ناراض ہیں۔ ناراضگی کی وجہ یہ ہے کہ گٹھ بندھن نے ضلع کی ایک بھی سیٹ پر مسلم امیدوارنہیں دیاہے۔ حالانکہ دونوں ہی پارٹیوںمیں کئی مضبوط لیڈر ٹکٹ کےدعویدار تھے۔
مظفر نگر ضلع کی پانچ سیٹوں کے لیے اتحاد کے امیدواروں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی مسلمان نہیں ہے۔ صرف مظفر نگر شہر کی سیٹ رہ گئی ہے۔ دونوں جماعتوں کے اندرونی ذرائع سے خبریں آرہی ہیں کہ اس پر بھی کوئی امیدوار نہیں ہوگا۔ اس پر سماج وادی پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر ٹکٹ نہیں دیتی ہے۔ ساتھ ہی آر ایل ڈی سے کہا جا رہا ہے کہ اس نے شاملی میں دو مسلم امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ شاملی پہلے مظفر نگر کا حصہ رہ چکا ہے۔
کشمکش میں ناراض مسلم لیڈر
اویسی مظفر نگر ضلع میں ایس پی آر ایل ڈی اتحاد کا کھیل خراب کر سکتے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ ان پارٹیوں میں ٹکٹ حاصل کرنے سے محروم رہنے والے کئی لیڈر اویسی کی پارٹی سے رابطے میں ہیں۔ اگر اویسی نے اس ضلع کی کچھ سیٹوں پر مضبوط مسلم امیدوار کھڑے کیے تو ایس پی-آر ایل ڈی اتحاد کے لیے جیت کا راستہ مشکل ہو جائے گا۔
ضلع میں قادر رانا، مرسلین رانا، لیاقت علی جیسے کئی مضبوط امیدوارایس پی -آر ایل ڈی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا چاہتے تھے۔ قادر رانا ایم پی اور ایم ایل اے بھی رہ چکے ہیں۔ مسلمان ان جیسے مضبوط دعویداروں سے محروم ہیں۔
ناراض لیڈروں پر اویسی کی نظر
یہاں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین، جو اپنا کھاتہ کھولنے کے لیے مضبوط امیدوار کی تلاش میں ہے، اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے لگی ہے۔ اویسی کی پارٹی کے لیڈر مسلمانوں کو طعنہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ویسے تو ایس پی-آر ایل ڈی مسلمانوں کی بڑی ہمدرد بن جاتی ہے لیکن جب ٹکٹ دینے کی بات آتی ہے تو وہ ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔ اویسی اپنی ہر ریلی میں یہی الزام لگاتے رہے ہیں۔
اویسی کا ماضی کا ریکارڈ کیا ہے؟
پچھلے الیکشن میں بھی اویسی کے 38 امیدواروں میں سے 37 مسلمان تھے۔ صرف ایک مخصوص نشست پر ان کی پارٹی کا ایک دلت امیدوار تھا۔ اس سے قبل بہار اور مغربی بنگال اور مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات میں بھی ان کی پارٹی کے تمام امیدوار مسلمان تھے۔ اویسی صرف مسلمانوں کو متحد کرنے کی بات کرتے ہیں، اس لیے اتر پردیش کے اس الیکشن میں بھی ان کی پارٹی کا مقصد صرف مسلم امیدواروں کو کھڑا کر کے اپنی پارٹی کی بنیاد کو بڑھانا ہے اور مسلم سماج میں اپنی پارٹی کی دخول بنا کر مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنا ہے۔ اویسی ان سیٹوں پر امیدوار کھڑے کریں گے جہاں 30-45 فیصد مسلمان ہوں گے۔
دوسری طرف سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ ایس پی اتحاد میں کم مسلم امیدواروں کے نام سے مسلمانوں میں یہ پیغام جا رہا ہے کہ ایس پی -آر ایل ڈی اتحاد مسلمانوں کے ووٹ تو چاہتا ہے لیکن انہیں امیدوار بنانے سے گریزاں ہے۔ اویسی بھی یہی الزام لگاتے ہیں۔ اویسی کے الزامات کو سچ ہوتے دیکھ کر اگر مسلمان ’اپنی قیادت، اپنی سیاست‘ کے فارمولے پر عمل کریں تو اویسی واقعی اکھلیش کا کھیل خراب کر سکتے ہیں۔
(بشکریہ: ستیہ ہندی)