تحریر : مسعود جاوید
دل تو میرا بھی یہی کہتا ہے کہ مٹھی بھر لوگ نفرت پھیلا رہے ہیں ان پر توجہ نہ دی جائے مگر عقل کہتی ہے کہ ہماری خاموشی فرقہ پرست متعصب عناصر کے لئے حوصلہ افزا ثابت ہو رہی ہے۔ اور ان کا حلقہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ تشدد کی چند حرکتوں کو وائرل کر کے عام لوگوں میں دہشت پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس سے مسلمان تو مسلمان انصاف پسند ہندو بھی سہمے ہوئے ہیں۔ وہ خوب سمجھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو ناحق نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ کہنے سے بچتے ہیں مبادا ان پر مسلم نوازی کا الزام نہ لگا دیا جائے!
اس ملک میں ایک نئی روش ٹرول اور ٹول کٹ کی چل پڑی ہے۔
ٹول کٹ
سوشل میڈیا پر کسی شخصیت ، پارٹی، تنظیم کمیونٹی یا کسی موضوع کے حق میں یا خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے کسی مرکزی دفتر یا سورس سے گروپ کے اراکین کے پاس متن بھیجا جاتا ہے بعض اوقات وہ اراکین بغیر کسی ترمیم؛ حذف اضافہ کے من و عن اسی متن کو پوسٹ کرتے ہیں اور اور بعض لوگ متن کے الفاظ میں معمولی ردوبدل کر کے پوسٹ کرتے ہیں۔
ٹرولنگ
ایک گروہ اس کام پر مامور ہے کہ وہ ہر اس شخص یا پارٹی لیڈران کو ٹرول کریں جو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے مسائل پر حق بات کہے۔ ایسے انصاف پسند غیر مسلم بھائیوں کو وہ مسلم دوست ، مسلم منہ بھرائی کرنے والے اور مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے والے وطن اور ہندوتوا سے محبت نہیں کرنے کا اس قدر طعنہ دیتے ہیں کہ وہ سہم جاتے ہیں اور بالآخر مسلم مسائل پر حق بیانی، ان کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ حتی کہ ملنے جلنے سے بھی کتراتے ہیں۔
یہ خلیج دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور جس قدر بڑھے گی ہندو مسلم سماج کے مابین فاصلے کم کرنا مشکل ہوتا جائے گا۔
اپنی خاموشی اور عزلت نشینی سے مٹھی بھر لوگوں کو وطن عزیز اور اس کے مقدس دستور کو یرغمال بنانے کا موقع فراہم نہ کریں۔
میرے خیال میں بنیادی طور پر آزادی کے بعد سے اقتدار میں رہتی آئی کانگریس پارٹی کی غلطیوں بلکہ مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں قومی یکجہتی ، پرامن بقائے باہمی اور مذہبی و ثقافتی رواداری کے تانے بانے بکھرنے کے دہانے پر ہیں۔ جس طرح آر ایس ایس نے اپنے نظریات کو پھیلانے کے لئے یکسوئی اور خاموشی سے پچھلے سو سالوں سے کام کیا ، گاندھی نہرو پٹیل اور آزاد کے وارثین نے ان کے نظریات بالخصوص حقیقی سیکولرازم کے مفہوم کو عام لوگوں تک پہنچانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔
بعد میں جب آر ایس ایس اپنے نظریات کے ساتھ کھل کر میدان میں آ گیا تو نام نہاد سیکولر پارٹیاں نظریاتی جنگ کو ووٹ کی جنگ سمجھ کر اکثریت نوازی اور سافٹ ہندوتوا کی راہ پر چل پڑیں۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔ اوریجنل کے مقابل ڈپلیکیٹ کو مقبولیت کہاں ملتی ہے !
ان پارٹیوں نے اگر اب بھی اس نظریاتی جنگ کو ووٹ اور اقتدار کی جنگ سمجھنے کی غلطی کی اور حقیقی سیکولرازم کی راہ پر چلنے کا کھل کر اعلان نہیں کیا ، اقلیت نوازی اور اکثریت نوازی کے کھوکھلی پالیسی اور ‘برا حلقہ vicious circle سے باہر نہیں نکلیں تو وہ دن دور نہیں جب فرقہ وارانہ رواداری ایک عیب سمجھی جانے لگے گی ۔
اس لئے اس کے لئے سیاسی پارٹیوں پر دباؤ ڈالنے کے علاوہ ہمیں اپنے حصے کا کام بھی کرنا چاہیے اور وہ ہے برادران وطن کے ساتھ رابطہ کر کے ملک و ملت کے مسائل پر سر جوڑ کر بیٹھنا اور دونوں فرقوں کے بڑوں کے توسط سے لوگوں میں اعتماد بحال کرنا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)