تحریر:ابھینو گوئل
جہانگیرپوری مکان نمبر 458
اس مکان پر تالا پچھلے ایک ماہ سے لٹکا ہوا ہے۔ گھر میں رہنے والے شخص کا پتہ معلوم نہیں ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں گیا اور کب واپس آئے گا۔
معلوم ہے تو صرف اس کی کہانی۔
پڑوسی کہتے ہیں،’ ’یہاں ’وہ‘ کرائے پر رہتا تھا۔ چکن سوپ بیچتا تھا لیکن پولیس کے ڈر سے بھاگ گیا۔‘‘
تاہم بی بی سی سے بات چیت میں دہلی پولیس کے پی آر او سمن نالوا نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ انہوں نے کہا، ’کچھ لوگوں نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی کہ پولیس لوگوں کو ہراساں کر رہی ہے۔ عدالت نے اس درخواست میں کچھ نہیں پایا اور اسے خارج کر دیا۔
’اس کے علاوہ کچھ حکومت مخالف اور اینٹی پولیس لوگ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، وہ لوگ ہمیں ہمارا کام کرنے سے پہلے روکیں گے اور پھر کہیں گے کہ پولیس کچھ نہیں کر رہی۔‘
‘’وہ‘ کئی سالوں سے جہانگیر پوری میں سوپ کی ریہڑی لگا رہا تھا لیکن اب کئی دنوں سےلوہے کی زنجیر سے ریہڑی بندھی ہوئی ہے اور اس کی دیکھ بھال کرنے والابھی کوئی نہیں ہے ۔
یہ کہانی اس ڈر کی ہے جو 16 اپریل کو ہوئی جہانگیر پوری کےتشدد سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد اس ڈر نے علاقے میں رہنے والےکئی مسلمانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
بی بی سی کو معلوم ہوا تھا کہ جہانگیرپوری تشدد کے بعد یہاں رہنے والے کئی مسلمان اپنا گھر اور کام چھوڑ کرجارہے ہیں۔ آخر اس کی اصل وجہ کیا ہے۔ یہ جاننے کے لیے ہم جہانگیر پوری کے اسی علاقے میں پہنچے جہاں اپریل میں فرقہ وارانہ تشدد ہوا تھا۔
جہانگیر پوری میں داخل ہونے پر تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مرکزی چوراہا ہے۔ چوراہے سے بائیں مڑنے پر 200 میٹر کے فاصلے پر ایک مسجد ہے اور وہاں سے کچھ دکانیں چھوڑ کر ایک مندر ہے۔ ہنومان جینتی کے دوران 16 اپریل کو اس سڑک پر فرقہ وارانہ تشدد ہوا تھا اور اس کے دو دن بعد ایم سی ڈی نے غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے کے لیے کارروائی کی تھی۔
واقعے کو ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود دکانوں اور مکانوں کے سامنے کا فرش تاحال ٹوٹا پھوٹا ہوا ہے۔ لوگوں نے پھر سے اپنی چھوٹی دکانیں لگانا شروع کر دی ہیں۔
پولیس نے سڑک سے رکاوٹیں ضرور ہٹا دی ہیں لیکن ان کی گشت عام دنوں کے مقابلے میں بہت بڑھ گئی ہے۔ ہم نے کئی بار پولیس کی گاڑیوں کو علاقے میں گشت کرتے دیکھا۔
مرکزی چوراہے سے سیدھا جانے پر بائیں طرف ایک سی بلاک ہے اور اس کے پیچھے کچی بستیاں شروع ہوتی ہیں۔ تنگ گلیوں کو عبور کرتے ہوئے ہم کچی بستی کے اندر پہنچے۔
کچی آبادی میں رہنے والے باہر سے آنے والے شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کپڑوں کے علاوہ مقامی لوگوں کی نظریں باہر سے آنے والے شخص کے جوتوں پر بھی جمی ہوئی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ پولیس والے سادہ وردی میں آتے ہیں لیکن ہم انہیں ان کے جوتوں سے پہچانتے ہیں۔
علاقے کے کچھ لوگوں نے بات کرنے پرتیار تو ہوئے لیکن اپنے نام ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ پولیس انہیں بھی ہراساں کرنا شروع کر دے گی۔
جہانگیر پوری میں رہنے والے فاروق کا کہنا ہے ، ’’پولیس نے پوچھ گچھ کے نام پر بہت سے لوگوں کواٹھا کر لے گئی ہے، پولیس کی کارروائی کی وجہ سے علاقے میں رہنے والے کئی مسلم پریوار گھر چھوڑ کرجا رہے ہیں۔ کئی مکانوں پر ایک ماہ سے تالے لگے ہوئے ہیں۔‘‘
کچی آبادی کے اندر تھوڑا آگے جانے کے بعد صفیہ بیوی ایک تنگ گلی میں رہتی ہیں۔ ان کی کہانی بھی پولیس کی کارروائی کے ارد گرد گھومتی ہے۔
صفیہ کا بیٹا تقریباً ایک ماہ قبل بیوی اور بچوں کے ساتھ گھر چھوڑ چکا ہے۔ کمرہ پر تالا لٹکا ہے اور ان کی اسکوٹر تب سے گھر کےباہر کھڑی ہے جس پر دھول کی پرت چڑھی ہوئی ہے۔
صفیہ کا بیٹا بچپن سے جہانگیر پوری میں مقیم تھا۔ وہ تقریباً 20 دن پہلے اپنے اہل خانہ کے ساتھ علاقہ چھوڑ دیا۔
ان کی والدہ صفیہ اب بھی یہیں مقیم ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’پولیس میرے بیٹے کی تلاش کر رہی ہے۔ یکم جون کو ہی چار لوگ میرے بیٹے کی تلاش میں گھر آئے تھے۔ یہ چاروں جو کہ سادہ وردی میں آئے تھے، خود کو دہلی پولیس کے بتا رہے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے بیٹےکے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔‘‘
صفیہ کا دوسرا بیٹا بھی جہانگیر پوری میں رہتا ہے۔ اس کے گھر والے بھی خوفزدہ ہیں۔ ان کی بیوی کہتی ہیں، ’’پولیس ہفتے میں دو بار تلاشی کے لیے آتی رہتی ہے۔ اس بار جب وہ آئے تو راشن کارڈ مانگ رہے تھے۔ ہم نے کچھ نہیں دیا۔ حتیٰ کہ ماں کو بھی نہیں معلوم کہ بیٹا کب واپس آئے گا۔
صفیہ کے بعد ہماری ملاقات مستقیم سے ہوئی۔ مستقیم کا کہنا ہے کہ ’’میں فرقہ وارانہ تشدد کے ایک دن بعد 17 اپریل کو یہاں سے بھاگ گیا تھا۔ میں صرف دو دن پہلے ہی واپس آیا ہوں۔ میں اپنے دوست کے گھر چھپا ہوا تھا۔ پولیس والے سب پر تشدد کر رہے ہیں۔ گھر پر لوگوں کو اٹھانے کے لئے آر ہے ہیں، میرے کچھ دوستوں کو پولیس نے بند کردیاہے اور کچھ کو پریشان کررہی ہے ۔‘
مستقیم کچی بستی میں واپس لوٹے تو ضرور ہیں لیکن کتنے دن روکیں گے اس کا ٹھیک ٹھیک جواب ان کے پاس نہیں تھا۔
مستقیم کے بعد ہماری ملاقات شریفہ بیوی سے ہوئی۔ 10 روز قبل پولیس نے شریفہ بی بی کے 19 سالہ بیٹے کو اٹھا کر لے گئی تھی ۔
شریفہ کہتی ہیں، ’میرا بیٹا رات کا کھانا کھا رہا تھا۔ 6 پولیس والے سادہ وردی میں آئے اور میرے بیٹے کو لے گئے، انہوں نے میرے بیٹے کو دو دن تک اپنے پاس رکھا اور پھر چھوڑ دیا۔‘
شریفہ کا بیٹا کباڑی کا کام کرتا ہے۔ شریفہ کے تین بڑے بیٹے مغربی بنگال میں رہتے ہیں۔
شریفہ کہتی ہیں، ’’پولیس یکم جون کو پھر آئی اور کہا کہ اپنے بڑے بیٹے کو پیش کرو، ورنہ گھر کی قرقی کردیں گے۔ میرا بڑا بیٹا پچھلے آٹھ ماہ سے مغربی بنگال میں رہ رہا ہے۔ وہ اس دن بھی یہاں نہیں تھا جب تشدد ہوا تھا۔ میری ایک جوان بیٹی ہے، پولیس والے جب بھی آتے ہیں۔ وہ ڈر اکر جاتے ہیں کہ وہ سب کو اٹھا کر لے جائیں گے ۔ ہم لوگ بہت پریشان ہیں ۔‘
یہ کہانی صفیہ، شریفہ جیسے کئی خاندانوں کی ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے جہانگیر پوری میں مقیم ہیں۔ ان خاندانوں کے مرد یا لڑکے جہانگیرپوری چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
جہانگیرپوری سے لوگ کہاں جا رہے ہیں؟
جہانگیر پوری میں زیادہ تر مسلم پریوار مغربی بنگال کے مشرقی مدنا پورمیں ہلدیہ اور اس کے آس پاس کے رہنے والے ہیں۔ کئی دہائیاں قبل یہ پریوار کام کی تلاش میں دہلی آئے اور وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے جہانگیر پوری میں اپنی رہائش گاہ بنا لی۔ یہاں رہنے والے پریوار زیادہ تر کباڑ چننے کا کام کرتے ہیں۔
کچی بستیوں میں رہنے والے زیادہ تر مسلم پریوار بنگالی بولنے والے ہیں۔ ہندی کے بجائے وہ بنگالی زبان بہتر بولتے ہیں۔
اکبر، جو جہانگیر پوری میں ہی موبائل کی دکان چلاتے ہیں، کہتے ہیں، ’پولیس کے خوف سے لوگ واپس مغربی بنگال کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ منگل کو چوراہے پر آٹو نظر آتے ہیں کیونکہ اس دن ٹرین آنند وہار سے ہلدیہ جاتی ہے۔ لوگ ہفتوں سے ایسا کر رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر وہ نہیں بھاگے تو پولیس انہیں پکڑ کر لے جائے گی۔‘
پولیس کس کو ڈھونڈ رہی ہے؟
جہانگیرپوری تشدد کی تحقیقات ابھی جاری ہے۔ پولیس ایسے مشتبہ افراد کی تلاش کر رہی ہے جو 16 اپریل کے فرقہ وارانہ تشدد میں مبینہ طور پر ملوث تھے، لیکن جہانگیر پوری میں رہنے والے مسلم خاندانوں کا کہنا ہے کہ پولیس جان بوجھ کر معصوم لوگوں کو ہراساں کر رہی ہے۔
پولیس کو جن لوگوں کی تلاش ہے ان میں سے ایک ساجدہ بھی ہے ، ساجدہ جہانگیرپوری کے بلاک سی میں رہتی ہیں ، جس دن فرقہ وارانہ تشدد ہوا اس وقت ساجدہ وہیں موجود تھی۔
ساجدہ کہتی ہیں،’میں تربوز لینے گئی تھی جب تشدد ہوا تو میں نے لوگوں کو منانے کی کوشش کی۔ ویڈیو میں میرا چہرہ بھی نظر آ رہا ہے۔ میں چار بار تھانے جا چکی ہوں، میں کہیں بھاگ نہیں رہی۔ لیکن پولیس والے گلی میں آکر بار بار پریشان کر رہے ہیں۔
ساجدہ کی پریشانیاں صرف اتنی نہیں ہیں۔ ان کا ایک بیٹا پرائیویٹ نوکری کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’تشدد کے بعد میرے بیٹے کے لیے کام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ میرے بیٹے کو باہر کھڑاکرکے رکھتے ہیں ۔ یہی طعنہ ملتا ہے کہ یہ جہانگیرپوری کا مسلمان ہے ۔ کام کرنا اس کے لئے بہت مشکل ہو گیاہے ۔
دوسری طرف جہانگیرپوری جی ایچ بلاک کی ریذیڈنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر اندرامنی تیواری کی رائے مختلف ہے۔ وہ پولیس کی کارروائی کی حمایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔
اندرامنی تیواری کہتے ہیں، ’پولیس اپنا کام کر رہی ہے۔ کوئی گھر سے نہیں جا رہا ہے۔ صرف وہی لوگ جا رہے ہیں جو فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث تھے۔ انہیں ہی ڈر لگ رہاہے ۔‘
اس معاملے پر بی بی سی نے شمال مغربی دہلی کی ڈی سی پی اوشا رنگنانی سے فون، ای میل اور پیغام کے ذریعے ذاتی طور پر ملنے کی کوشش کی لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔
پولیس جن مسلم پریواروں پر کارروائی کررہی ہے ان کی مدد کرنے والوں میں ایک نام فاروق کا بھی ہے۔ فاروق جہانگیرپوری میں کباڑ کاکام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ’ پولیس نے مسلم سماج سے اب تک 35 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ ہم ان پریواروں کی مدد کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس جہانگیر پوری تشدد کیس کے تقریباً 12 ملزمان کو قانونی مدد فراہم کر رہی ہے۔ تنظیم کے قومی سیکرٹری ندیم خان پولیس کی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پولیس نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ اس کے ذریعے ایسے لوگوں کو بھی ہراساں کیا جاتا ہے جن کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔
ندیم خان کے مطابق جہانگیرپوری تشدد کیس میں پولیس نے نابالغ بچے کو ماسٹر مائنڈ کے طور پر اٹھایا تھا۔ پولیس نے عدالت سے اس کی تحویل بھی لے لی تھی۔ عدالت نے اس وقت عمر کا جائزہ نہیں لیا۔ ہم اس معاملے کو ہائی کورٹ میں لے گئے۔ عدالت نے پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے چار گھنٹے میں جوونائل سینٹر بھیجنے کا حکم دیا۔
جہانگیر پوری میں مسلم کمیونٹی کے لوگ جو سیکڑوں میل دور روزی روٹی کے لیے آئے تھے، اب تشدد کے بعد ان کی زندگی بدل گئی ہے۔ بہت سے خاندان مغربی بنگال میں اپنے گاؤں واپس جانا چاہتے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو اب بھی اس امید میں ہیں کہ اگر معاملہ ٹھنڈا ہو گیا تو زندگی پھر سے پٹر ی پر آجائے گی۔
(بشکریہ: بی بی سی ہندی)