نئی دہلی ۲۱؍ اکتوبر :جمعیۃ علماء ہند کےصدر مولانا محمود اسعد مدنی کی دعوت پر دفتر جمعیۃ علماء ہند نئی دہلی کے مدنی ہال میں ملک کی مختلف سماجی و تعلیمی شخصیات کا ایک اجتماع منعقد ہوا ، جس میں وطن عزیز میں پیدا کرہ معاشرتی تفرقہ اور بے چینی پر تفصیل سے تبادلۂ خیال ہوا۔ اس اجتماع میں گاندھی جی کے پڑپوتے شری تشار ارون گاندھی سمیت کئی اہم شخصیات نے شرکت کی اور فرقہ پرستی کے خلاف متحدہ پلیٹ فارم بنانے کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں مزید مشورےکے بعد جلد ایک کمیٹی کا اعلان کیا جائے گا ۔
مولانا محمود اسعد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند* نے افتتاحی کلمات میں تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ بعدہ مہمان خصوصی *تشار ارون گاندھی* نے اپنے کلیدی خطاب میں مسلمانوں کی موجود ہ صورت حال پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ دائیں بازو کا گروہ شہریت ترمیمی قانون (CAA) ، نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) اور وقف کا مسئلہ مسلمانوں کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ سے حکومت عام لوگوں کی توجہ ان پالیسیوں سے ہٹانے میں کامیاب ہوتی ہے جو اقلیتوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ مسلمانوں کو مخالف کے طور پر پیش کرنے کی اس حکمت عملی نے دیگر اقلیتی مسائل کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے اور تعصب کو بڑھاوا دیا ہے۔
تشار گاندھی نے مستقبل کے حوالے سے سخت انتباہ جاری کیا کہ اگر منظم طور پر مسلمانوں کوعلیحدہ کرنے کی سازش جاری رہی تو یہ بالآخر سنگین تصادم کا سبب بن سکتی ہے۔ مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف پالیسیاں الگ تھلگ واقعات نہیں ہیں بلکہ ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہیں جو اقلیتوں کو حاشیے پر دھکیلنے کے لیے بنائی جا رہی ہے۔ ان امتیازی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قانونی اور معاشرتی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
تشار گاندھی نے اپنے خطاب کے اختتام پر اجتماعی جد وجہد کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی مخصوص جماعتیں تشکیل دی جائیں جو قانونی اور سیاسی محاذوں پر اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب کا مقابلہ کر سکیں۔ اگر فوری طور پر ایسا نہیں کیا گیا تو مستقبل میں ملک کو مزید گہری تقسیم اور کشیدگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ آج برادرانِ وطن کو ہمارے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے، ہمیں سیاسی اور سماجی طور پر مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں سب سے اہم کردار اکثریتی طبقے کے ذمہ دار افراد کو ادا کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ غلط معلومات ان لوگوں کو بھی نقصان پہنچائیں گی جو اسے استعمال کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آج آزادی سے سڑک پر چلنے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ ممبئی جارہی ٹرین کے واقعے کویاد کریںجہاں ایک بزرگ پر حملہ کیا گیا اور لگاتار پیٹا گیا، مگر کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔ بہرائچ کی صورتحال اور میڈیا کا کردار آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔اس مشکل ماحول میں ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کو مایوسی سے بچائیں۔ اگر ہم بھی اسی جارحانہ لہجے اور طریقے کا سہارا لیں گے تو یہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ اس سے نفرت کی آگ مزید بھڑکے گی۔ اس کے بجائے میں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ اس نفرت کی بھٹی کو بجھانے کے لیے آگے آئیں۔ آپ اس ملک کی اکثریت ہیں، اور یہ ملک آپ سے بڑی امیدیں رکھتا ہےاجلاس سے سید ظفر محمود ، وجے پرتاپ، پروفیسر ارون کمار،پروفیسرسوربھ واجپئی،ڈاکٹر جاویدعالم،اور مولانا حکیم الدین قاسمی وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا
اس موقع پر اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف صدر جمہوریہ کے نام ایک میمورنڈم اتفاق رائے سے منظور کیا جس پر تمام شرکاء نے دستخط کئے