تحریر: ذاکر علی تیاگی
جھارکھنڈ کی ہیمنت سورین حکومت نے ماب لنچنگ پر لگام کسنے کے لیے ’انسدادہجومی تشدد اور بھیڑلنچنگ ایکٹ‘ قانون21 دسمبر کو ایوان سے منظورکروا لیاہے۔ تیار مسودے کےمطابق ماب لنچنگ کے قصور وار کو عمر قید اور 25 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دی جائے گی۔ اس نئے قانون سے لنچنگ کے متاثرین کے اہل خانہ کی کیا توقعات ہیں، کیا انہیں جلد از جلد انصاف ملے گا؟ ان تمام سوالات کے جوابات جاننے کے لیے نیوزکلک نے متاثرین کے اہل خانہ سے بات کی کہ وہ قانون کو کس نظر سے دیکھتے ہیں!
18 مئی 2017 کو شیخ حلیم، شیخ نعیم، سراج خان اور محمد ساجد کو سرائے کیلا کھرسانوا ضلع کے راج نگر (شوبھا پور) علاقے میں ایک ہجوم نے اس لیے مار مار کر ہلاک کر دیا تھا کیونکہ انھیں شبہ تھا کہ انھوں نے شادی کی تقریب کے لیے گائے کا گوشت سپلائی کیا تھا۔ مقتول حلیم کے بھائی شیخ حلیم نے نیوز کلک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے بھائی کی ہلاکت کے کیس میں پولیس نے 22 افراد کو گرفتار کیا، 12 ملزمان کو 4 سال قید کی سزا سنائی گئی تاہم انہیں چند روز بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔حکومت نے صرف ہمیں 2 لاکھ روپے بطور معاوضہ دیا لیکن نوکری کا وعدہ کرکے آج تک نوکری نہیں دی، حلیم کی بیوی 2 بیٹیوں اور 1 بیٹے کے ساتھ فقیروں کی طرح زندگی گزار رہی ہے، ملزمان آزاد ہیں، میری حکومت سے اپیل ہے کہ بنائے گئے نئے قانون کے تحت اگر ملزمین پر کارروائی کی جاتی ہے توہمیں بھی انصاف مل سکے گا۔ ابھی تک سرکار سے جو مدد ملنی تھی نہیںملی۔ میرے بھائی کے قصور واروںپر سرکار کارروائی کرکے وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔ ماب لنچنگ پر بنے قانون کی ہم تعریف کریں گے کیونکہ ہم چاہتے ہیںکہ پھر سے کسی کی لنچنگ نہ ہو۔‘‘
18 مئی 2017 کو ہی مشرقی سنگھ بھوم ضلع کے باگبیرا تھانہ علاقے میں بچہ چوری کا الزام لگاتے ہوئے ہجوم نے ایک خاتون سمیت چار لوگوں کی پٹائی کی۔ اس میں دو حقیقی بھائی گورو ورما اور وکاس ورما اور ان کی دادی رام ساکھی دیوی موقع پر ہی ہلاک ہو گئے، متوفی کے بھائی اتم ورما نے اپنی جان بچائی، اتم ورما نے اپنے خاندان کی موت اور لنچنگ پر لگام لگانے کے لیے بنے قانون کاذکر کرتے ہوئے ہم سے کہا کہ ’’ میرے 2 بھائیوں اور میری دادی کو بچہ چوری کے الزام میںپیٹ پیٹ کر مارڈالا گیامیں بچ توگیالیکن میری جان بھی میرے مرنے والے بھائیوں نے ہی بچائی۔ پیٹنے والوں نے پہلے مجھ سے آدھار کارڈ منگوائے ۔ آدھارکارڈ دیکھ کر میرے پریوار کے 3 لوگوںکو مار ڈالا۔ اس معاملے میں انتظامیہ بھی سرخم ہو کر دیکھتی رہی۔ بعد میں 35 لوگوں کو گرفتار کیا گیا فی الحال تمام ملزمان ضمانت پر باہر ہے۔ 2 شخص جیل میں ہی ہے۔ میں ہیمنت سورین سرکار سے کہتا ہوںکہ ہمارے معاملےمیں سی بی آئی جانچ ہو تاکہ لنچنگ کرنےوالوں کے ساتھ لنچنگ کرانے والوں کے نام بھی سامنے آسکیں۔ ابھی تک توہمیں انصاف نہیں ملا ۔ نئے قانون سے سرکار کس طرح کارروائی کرے گی یہ دیکھنا باقی ہے۔ امیدہے کہ پرانے قصوںمیں بھی سرکار اس قانون کو لاگو کر کےتمام ملزمان پر کارروائی کرے گی ۔
رام گڑھ ضلع کے منوا فل سرائے کے رہنے والے علیم الدین کا 29 جون 2017 کو قتل کر دیا گیا تھا، علیم الدین کو ماروتی وین میں گائے کا گوشت لے جانے کے الزام میں بازار ٹنڈ میں گیس ایجنسی کے قریب ہجوم نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کیس میں عدالت نے 11 مجرموں کو عمر قید کی سزا بھی سنائی لیکن بعد میں تمام ملزمان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ علیم الدین انصاری کی اہلیہ مریم خاتون نے ملزموں اور حکومت کے لنچنگ روک تھام کے قانون میں سزا کے بعد ضمانت پر بات کرتے ہوئے نیوز کلک کو بتایا کہ مجھے آدھا ادھورا انصاف ملا ہے، تمام ملزمان ضمانت پر آزاد گھوم رہے ہیں، حکومت نے سننے کے بعد نیا قانون بنایا ہے۔ اچھا لگا لیکن میرے شوہر کے ملزمان کے خلاف کارروائی کب ہوگی، یہ میرا سوال ہے، میرا شوہر واحد کمانے والا تھا، ان کے جانے کے بعد میں اپنی زندگی کیسے گزار رہی ہوں، میں نہیں بتا سکتی، میرے بچوں کو روزگار ملنا چاہیے، ملزم کو سزا ملے تب ہی میں نیا قانون کو اچھا سمجھوں گا۔
17 جون 2019 کی رات، متوفی تبریز انصاری جمشید پور میں اپنے چچا کے گھر سے سرائی کیلا میں واقع اپنے گاؤں کدمڈیہا واپس آ رہے تھے۔ دریں اثناء، راستے میں دھٹک ڈیہہ گاؤں دیہی لوگوں نے اسے موٹر سائیکل چوری کے الزام میں پکڑ لیا اور اسے باندھ کر رات بھر مارا پیٹا۔ وہ چار دن بعد صدر اسپتال میں اس کی موت ہوگئی۔ نئے قانون پر بات کرتے ہوئے تبریز انصاری کی اہلیہ شائستہ پروین نے نیوز کلک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیا قانون بن گیا ہے اچھی بات ہے،لیکن ہمیں انصاف ملنا چاہیے، 11 لوگوں کو پولیس نے میرے شوہر کی لنچنگ کے معاملے میں جیل بھیجاتھا صرف اب ایک ہی جیل میں ہے باقی تمام جیل سے باہر ہیں۔ مجھ اکیلی کو نہیں بلکہ ماب لنچنگ میں اپنی جان گنوا چکے تمام متوفیوں کے پریوار والوں کو انصاف ملنا چاہئےکیونکہ ہم تمام نے ایک ساتھ لڑائی لڑی ہے۔
نئے قانون پر بات کرتے ہوئے مسلم یوتھ لیگ کے جھارکھنڈ کے ریاستی صدر، عرفان خان، جو ہجومی تشدد کے متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں، نے کہا،’اس قانون میں فاسٹ ٹریک کورٹ کے قیام کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جب بھی ماب لنچنگ ہوتا ہے، پولیس وہاں موجود ہوتی ہے لیکن گھر والوں کی کوششوں کے بغیر ایف آئی آر بھی درج نہیں کرتی، اگر پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرتی تو کیس کمزور ہو جاتا ہے، اس نئے قانون میں اس کی کوئی بات نہیں ہے۔ متاثرین کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے، میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ فاسٹ ٹریک کورٹس قائم کرکے متاثرین کو حقیقی معنوں میں انصاف فراہم کیا جائے۔
(بشکریہ:نیوز کلک)