تحریر: سوریہ پرکاش
اب تک دو سروے میں اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی واضح جیت کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ بھلے ہی انتخابی سروے کو حقیقت نہیں مانا جا سکتا، لیکن اس سے سماج وادی پارٹی کی تشویش ضرور بڑھ جاتی ہے۔ اے بی پی نیوز اور ٹائمز ناؤ کے سروے میں بی جے پی کو واضح اکثریت دکھایاگیا ہے، جب کہ ایس پی 150 کا ہندسہ بھی عبور کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کے علاوہ مایاوتی کی بی ایس پی اور کانگریس بھی بے اثر نظر آرہی ہیں۔ اکھلیش یادو نے اکثر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ عوام نے اب بی جے پی کو دواع کرنے کا ارادہ کر لیا ہے، لیکن سروے یہ نہیں دکھاتے ہیں۔ ایسے میں اکھلیش یادو کو اپنی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
اگر ہم پچھلے چند مہینوں کا تجزیہ کریں تو اکھلیش یادو بھلے ہی اپنے بیانات سے بحث میں رہے ہوں، لیکن سڑک پر اترنےمیں پیچھے نظر آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے بیانات کو بھی حق میں ہوابنانے کی بجائے سیلف گول کرنے والے نظر آئے ہیں۔ سردار پٹیل، مہاتما گاندھی کے ساتھ محمد علی جناح کا نام لے کر انہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ اس پر بی جے پی نے انہیں جم کر گھیرلیا اور اکھلیش دباؤ میں آنے کے بعد بھی بیان واپس لینے سے پیچھے ہٹتے نظر آئے۔ یہی نہیں ان کے اتحادی اوم پرکاش راج بھر نے ایک بار پھر سے جناح کی تعریف کر تنازع کھڑا کردیا۔
اس کے علاوہ اکھلیش یادو نے بی جے پی کے ذریعہ بدلے گئے کئی شہروں، ریلوے اسٹیشنوں وغیرہ کے ناموں کے بارے میں بھی کہا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو پرانے ناموں کو دوبارہ بحال کریں گے۔ بھلے ہی اکھلیش یادو بی جے پی کو جواب دیتے ہوئے ان بیانات کی وجہ سے سرخیوں میں آگئے ہیں لیکن اس طرح وہ بھگوا پارٹی کی حکمت عملی میں بھی پھنستے نظر آئے ہیں۔ نام بدلنا بھی بی جے پی کے لیے پولرائزیشن کا مسئلہ رہا ہے اور اس کی وجہ سے وہ اس معاملے پر جارحانہ رہی ہے۔ ایسے میں ان ناموں کو دوبارہ تبدیل کرنے کی بات کرکے اکھلیش یادو نے خود بی جے پی کو برتری دلائی ہے اور اس کے جال میں پھنستے نظر آرہے ہیں۔
سیاسی ماہرین کے مطابق اکھلیش یادو کو نام بدلنے اور جناح جیسے مسائل کے بجائےبے روزگاری ، پولیس استحصال ، سرکاری بھرتیں میں بے قاعدگیوں جیسے معاملوں کو اٹھانا چاہئے۔ اس سے وہ عوامی مسائل سے جڑے رہیں گے اور بی جے پی کا جال بھی کاٹ سکیں گے ۔ تیجسوی یادو نے بہار کےانتخابات میں یہ حکمت عملی اپنائی تھی اور یہ کارگر رہی۔ بھلے ہی وہ بی جے پی اور جے ڈی یو کے اتحاد کی وجہ سے اقتدار میں نہ آسکے لیکن روزگار جیسے مسائل کو اٹھا کر آر جے ڈی کو سب سے بڑی پارٹی بنانے میں کامیاب رہے تھے۔
(بشکریہ: ہندوستان )