ایڈوکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
ہمارے ملک کی راجدھانی دہلی میں واقع جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالب علم نجیب احمد کی پراسرار گمشدگی کو پانچ سال پورے ہوچکے ہیں، 15 اکتوبر 2016 کی صبح 27 سالہ نوجوان جو کہ ایم ایس سی بایوٹیکنالوجی کا طالب علم تھا، اچانک غائب ہوجاتا ہے، ایک روز قبل 14 اکتوبر 2016 کی شام میں اے بی وی پی (اکھل بھارتیہ ودھیارتی پریشد) کے کارکنان ماہی مانڈوی ہاسٹل کے کمرہ نمبر 106 میں داخل ہوتے ہیں اور نجیب کو بری طرح سے زدوکوب کیا جاتا ہے، نجیب صفدر جنگ ہاسپٹل میں ایڈمٹ کیا جاتا ہے جہاں علاج کے بعد وہ دیر رات اپنے ہاسٹل واپس آجاتا ہے، گمشدگی کو لے کر جے این یو اسٹوڈنٹس اور نجیب کے اہل خانہ کی روز اول سے شکایت یہی رہی کہ ایک روز پہلے بے رحمی سے ہونے والی مارپیٹ کے دوران نجیب کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی، یعنی متفقہ طور پر مارپیٹ کے بعد انہیں کارکنان نے نجیب کو غائب کیا کیونکہ ان لوگوں نے دھمکیاں بھی دی تھیں۔
آج ان پانچ برسوں میں نجیب کی پراسرار گمشدگی کے دوران پولیس کی تفتیش یقینا تشویش کن رہی، نجیب کے روم پارٹنر قاسم اور ہاسٹل کے دیگر لڑکوں نے پولیس کو دوران تفتیش بتایا کہ مارپیٹ کے بعد نجیب بہت ڈرا سہما ہوا تھا۔ اس حادثے کے کچھ دنوں کے بعد ہی جے این یو کے چیف پراکٹر اے پی ڈمری نے استعفی دیتے ہوا کہا کہ نجیب کے اوپر حملہ کرنے والوں کے خلاف پولیس کاروائی کی بار بار مانگ کی لیکن وائس چانسلر نے اجازت نہیں دی۔
نجیب کی پراسرار گمشدگی پورے ملک میں ایک اہم موضوع بحث بن گیا، والدین پریشان تھے کہ کیا ملک کی راجدھانی سے ایک نوجوان یوں غائب ہوسکتا ہے اور پولیس ملزمین کے خلاف کاروائی کرنے کو تیار نہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ نجیب کے معاملہ میں پولیس شکایت اور ایف آئی آر کرانے میں تاخیر ہوئی، جے این یو کے طلبا وائس چانسلر آفس کے سامنے احتجاج کرنے میں مشغول ہوگئے، احتجاج کے شور اور سوشل میڈیا کے ہنگامے کے بیچ نجیب کی پولیس ایف آئی آر درج کرانے کا شاید خیال ہی نا آیا ہو، سپریم کورٹ کی سابق جج مرکنڈے کاٹجو کے سخت بیانات کے بعد ایف آئی آر کے لئے پولیس میں شکایت پیش کی گئی۔
ایف آئی آر درج ہونے کے بعد دہلی پولیس نے تفتیش میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، دہلی پولیس نے ایس آئی ٹی کے ذریعے نجیب کی گمشدگی کے معمہ کو سلجھانا جانا، لیکن پیش رفت کے انداز اور کوئی کامیابی حاصل نا کرنے ہونے کے بعد تفتیش کرائم برانچ کو منتقل کردی گئی، کرائم برانچ نے بھی دہلی پولیس کی طرح اس مقدمے کو گمشدگی یا اغوا کے طور پر تفتیش کرنے کے بجائے نجیب کے دوستوں پر یہ دباو ڈالنے کی کوشش کی کہ نجیب اپنی مرضی سے خود کہیں چلا گیا ہے، اس سمت میں ہاسٹل کے وارڈن سے بھی پولیس نے بیان لیا جو بیان حادثہ کے تقریبا ایک مہینے کے بعد لیا گیا جس میں “وارڈن کہا کہ 15 اکتوبر کی صبح نجیب کو آٹو میں بیٹھ کر جاتے ہوئے دیکھا تھا”۔ پولیس نے پھر ایک آٹو والے کو بھی تلاش کرلیا جس کے مطابق “اس آٹو والے نے نجیب کو بٹلہ ہاوس جامعہ نگر میں چھوڑا تھا”۔ پولیس کے مطابق نجیب اپنے انکل کے گھر بٹلہ ہاوس گیا تھا جب کہ انکل کے مطابق نجیب ان کے گھر نہیں آیا۔
نجیب کی گمشدگی کو لے کر افواہوں کے بازار بھی سجائے گئے اور آئی ایس آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ) میں شامل ہونے اور عراق جانے کی خبریں عام کی گئیں، فرضی فوٹو سوشل میڈیا میں پھیلائے گئے، بہر حال گمشدگی کی تفتیش کرائم برانچ سے 2017 میں سی بی آئی (سنٹرل بیورو آف انوسٹیگیشن) کو منتقل کردی گئی، سی بی آئی نے اکتوبر 2018 کو متعلقہ عدالت میں کلوزر رپورٹ داخل کرکے یہ دعوی کیا کہ دوران تفتیش سی بی آئی کو کسی بھی قسم کا کوئی ثبوت یا گواہ نہیں ملا جس کی بنیاد پر کسی کے خلاف چارج شیٹ داخل کرسکے، اس کلوزر رپورٹ کے خلاف نجیب کی ماں نے 27 فروری 2019 کو عدالت میں پروٹسٹ پٹیشن داخل کرکے سی بی آئی کی رپورٹ میں موجود بہت سی کمیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھیں۔ سی بی آئی نے نجیب پر حملہ کرنے و جان سے مارنے کی دھمکی دینے والوں کو گرفتار نہیں کیا، سی بی آئی نے اے بی وی پی کے 9 کارکنان کے 6 موبائل فون تفتیش کے دوران جانچ کے لئے فارنسک سائنس لیباریٹری (ایف ایس ایل) چنڈی گڑھ بھیجے جس میں تقریبا 122 گیگابائٹس ڈاٹا نکلا، 7907 آڈیو فائلس، 1440 ویڈیو فائلس، 4015 ٹیکسٹ میسیج، 3870 واٹس اپ فائلس، 114488 فوٹو فائلس، 29608 ایس ڈی کارڈ فائلس، 20717 دیگر فائلیں، ان تمام کو لے کے 36401 صفحات کی رپورٹ تیار کی گئی، نجیب کی ماں نے اپنی پٹیشن میں کہا کہ ان موبائلوں سے برآمد فائلیں ان کو یا ان کے وکیل کو مہیا نہیں کرائی گئیں۔
نجیب کے معمہ کو سلجھانے کے میں ناکام ایجنسیوں کی تساہلی کو دیکھتے ہوئے نجیب کی بوڑھی ماں کبھی جنتر منتر تو کبھی سی بی آئی ہیڈ کوارٹر پر احتجاج کرتی رہی، احتجاج کے دوران پولیس کی زیادتیوں کا سامنا بار بار کرنا پڑا، پورے ملک میں احتجاج ہوئے لیکن نجیب کے بارے میں حکومت اور حکومتی ادارے کوئی بھی سراغ لگانے میں ناکام رہے، نجیب کے کمرے سے اس سے متعلق تمام چیزیں پولیس اٹھالے گئی، وہ چیزیں جن سے پولیس تفتیش کو کوئی سروکار نہیں تھا لیکن نجیب کی ماں کے اصرار کے بعد بھی پولیس جو سامان ذبردستی لے گئی تھی وہ کبھی لوٹائی نہیں گئیں۔
دستور ہند حکومت کے اوپر دستوری ذمہ داری عائد کرتا ہےکہ ہر انسان کے جان و مال کی حفاظت کی جائے، اگر کسی بھی شہری کی جان یا آزادی کو کسی بھی قسم کاخطرہ لاحق ہوتا ہے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ہر ممکنہ خطرے سے تحفظ فراہم کرے، پولیس مقدمہ درج کرے اور عدلیہ اس مقدمے کی تفتیش پر خصوصی نظر رکھے تاکہ تفتیش کے دوران تفتیشی افسر کسی بھی طرح سے اپنی قانونی ذمہ داریوں میں تساہلی یا جانبداری کا شکار نا ہو۔ نجیب کی ماں فاطمہ آج بھی اپنے بیٹے کی واپسی کی منتظر ہیں، دہلی راجدھانی کی سینٹرل یونیورسٹی سے جس پراسرار طریقے سے نجیب غائب ہوا وہ آج تک ایک معمہ بنا ہوا ہے، اے بی وی پی کے جن کارکنان نے نجیب پر حملہ کیا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں وہ آزاد گھوم رہے ہیں، جے این یو میں 5 جنوری 2020 کو ایک بار پھر اے بی وی پی کے کارکنان نے لاٹھی ڈنڈوں اور دھاردار ہتھیاروں کے ساتھ وہاں کے طلبا پر حملہ کیا تھا، ان حملہ آوروں کی شناخت بھی ہوگئی تھی، لیکن ان حملہ آوروں کے خلاف کوئی قانونی کاروائی ابھی تک نہیں ہوئی، اس حملہ میں لڑکیوں کے سر پھوڑدیئے گئے تھے، خون آلود چہروں کے ساتھ جے این یو کے طلبا و طالبات پولیس اسٹیشن سے لیکر ہاسپٹل تک گئے لیکن کوئی کاروائی نا ہونا یہ علامت ہے کہ حکومت اور حکومتی اداروں کی پشت پناہی ہی ایسے سماج دشمن عناصر کو ہمت و حوصلہ بخشتے ہیں جس کے بعد نجیب جیسے طالب علم کی گمشدگی ہوتی ہے جو پھرایک معمہ بن جاتی ہے، نجیب کی پراسرار گمشدگی کے بعد فوری قانونی کاروائی میں تاخیر یقینا ایک بڑی غلطی تھی، شروعات سے ہی ایف آئی آر اور مضبوط قانونی کاروائیوں کے بجائے نام نہاد سماجی کارکنان کا پورا زور احتجاجات، مظاہروں اور پریس کانفرنس کے انعقاد پر رہا جس نے مقدمے کو یقینا کمزور کیا، قانونی پیش رفت ہی قانونی طور پر مقدمے کو مضبوط کرتی ہے، نام نہادسماجی کارکنان کا صرف احتجاج و پریس کانفرنس کے ذریعے انصاف حاصل کرنے کی کوششیں کہیں نا کہیں مقدمے کو صحیح سمت میں پیش قدمی کرنے سے روک دیتے ہیں اور مقدمہ سیاست اور شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے لیکن متاثرہ خاندان آخر میں تن تنہا اکیلا ہوجاتا ہے جیسے آج پانچ سال کے بعد نجیب کی ماں فاطمہ اکیلی کھڑی اپنے جواں سال بیٹے کی راہ تک رہی ہیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)