تحریر: ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
ہماری مادری زبان اردو ہے، اور صحافت یا جرنلزم ہمارے نظام حکومت یعنی جمہوریت کا چوتھا ستون ہے، اور آج اردو صحافت کے دوسوسال مکمل ہوئے ہیں، صحافت کو عام زبان میں پریس بھی کہا جاتا ہے، ہمارے سماج میں صحافت کا بنیادی کردار ہے اور وہ کردار ہے سماج کو معلومات فراہم کرنا، ان کو باعلم اور باخبر رکھنا، ساتھ ہی ساتھ مفاد عامہ کے تئیں سماج کی صحیح سمت میں رہنمائی کرناہے۔ کسی بھی ملک یا سماج میں کمیونکیشن کا سب سے اہم ادارہ پریس یا میڈیا ہوتا ہے جو کہ کسی بھی قانون کی خلاف ورزیوں یا اہم معاملات اور ایشوز پر عدلیہ کی کارگزاریوں سے ملک و عوام کو باخبر کرتا ہے۔ ہم نے ماضی میں مشاہدہ کیا ہے کہ کس طرح صحافیوں نے بڑے اسکینڈل سے پردہ اٹھاکر بڑے بڑے سیاسی رہنماوں کے ساتھ افسر شاہوں کو بھی عدالت کے کٹگھرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ عوام میں بیداری خصوصا سرکاری کرپشن کو عیاں کرکے میڈیا نے حکومتوں کا تختہ پلٹ دیا ہے، انا ہزارے کی تحریک اور اس کے بعد پورے ملک میں سرکار بدلنے کا جو ایک ماحول تیار ہوا تھا اس میں سب سے اہم کردار میڈیا اور صحافت کا ہی رہا تھا۔
میڈیا چونکہ جمہوریت کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے اس لئے ضروری تھا کہ میڈیا پر کسی قسم کا کوئی دباو نا ہو، ہر طرح کے دباو اور خطرات سے تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے ہمارے دستور نے پریس کی آزادی کو بنیادی حقوق کے آرٹیکل 19 کے تحت دستوری مراعات فراہم کی ہیں، یہ آزادی ایک اہم مقصد کے تئیں فراہم کی جاتی ہے اور وہ ہے کہ کسی بھی طرح کے حقائق کو عوام کے سامنے لانے سے کوئی روک نہیں سکے، نیز جمہوری حکومت کی کسی بھی پالیسی پر میڈیا عوام کے مفاد میں حکومت سےسوال کرسکیں کیونکہ جمہوری نظام حکومت میں عوام ہی حکومت کا انتخاب کرتی ہے اور اصولی طور پر حکومت عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔ بیشک پریس کی آزادی کے ساتھ ساتھ اس کی جواب دہی بھی اتنی ہی ضروری ہے تاکہ آزادی کے ساتھ ملے ہوئے اختیارات کا ناجائز استعمال ہونے کے اندیشوں کو کم کیا جاسکے۔
صحافت کی آزادی کا منبع بھی دستور کا آرٹیکل 19 ہی ہے جو تمام شہریوں کو متعدد آزادیاں فراہم کرتا ہے، جن میں “تمام شہریوں کو اظہار خیال کی آزادی نیز مافی الضمیر کا برملا اظہار کرنے کی پوری پوری آزادی فراہم کی جاتی ہے۔ آزادی سے پہلے اظہار خیال کی کوئی آزادی دستوری یا قانونی طور پر عوام کے پاس موجود نہیں تھی اس لئےانگریز حکومت کے خلاف کوئی مضمون یا اپنے نظریات شائع کرنے پر ہمارے اہم و سرکردہ لیڈران اور ان کے اخبارات و رسائل کو سخت قوانین و پولیس کاروائیوں کے ذریعے انگریز حکومت روکنے کی تمام کوششیں کیا کرتی تھی، لیکن ملک کے آزاد ہونے کے بعد ہمارے دوراندیش رہنماوں نے ایک مضبوط جمہوری نظام کو قائم کرنے کے لئے دستور میں آرٹیکل 19 کو شامل کیا جس کا واحد مقصد حکومت یا حکومتی اداروں کی کارگزاریوں نیز پالیسیوں پر عوام کو آزادی کے ساتھ اپنے خیالات اور رائے کو پیش کرنے کی آزادی دی جائے تاکہ سماج میں انارکی پھیلنے سے باز رہے، آرٹیکل 19 (1) (اے) اور (بی) کے مطابق تمام شہریوں کو آزادی خیال اور تقریر کی آزادی ہے جب کہ آٹیکل 19 کی شق (2) اور (3) کے تحت کچھ شرائط و پابندیاں لگائی گئی ہیں جن کے مطابق وہ اظہار خیال کی آزادی کے لئے دستوری طور پر یہ شرط لگائی گئی کہ اظہار خیال کا استعمال کرتے ہوئے سماج میں نفرت کے بیج نا بوئے جائیں، کسی بھی سماجی ، مذہبی یا علاقائی طبقے کو خوف و حراس کا شکار نا بنایا جائے، کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے، ملک کی خودمختاری و سالمیت کے لئے خطرہ نہ پیدا کیا جائے، پبلک آرڈر یعنی امن و امان، دوست ممالک سے تعلقات، توہین عدالت اور ہتک عزت یا فساد بھڑکانے کی غرض سے اس دستوری حق کا استعمال نا ہو۔
ایک دوسرے کے بنیادی و دستوری حقوق کو تحفظ فراہم کیا جاسکے، انسانی احترام و سماجی اقدار کی حفاظت ہوسکے۔جمہوریت کا سب سے اہم ستون عدلیہ ہے۔ عدلیہ کا دستوری فریضہ ہے کہ سماج میں کسی کے ساتھ کوئی ظلم یا ناانصافی نا ہو، اگر کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوتی ہے یا کسی کے دستوری حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو عدلیہ کو اس بات کا مکلف بنایا گیا ہے کہ اگر عدلیہ کے علم میں ایسی کوئی خبر پہنچتی ہے تو عدلیہ بذات خود اس واقعہ پر کاروائی کرسکتی ہے۔ عدلیہ کو کاروائی کرنے کے لئے انتظار کرنا ضروری نہیں ہے، میڈیا کی ذمہ داری یہاں بہت اہم ہوجاتی ہے کہ وہ صحیح خبروں تک نا صرف خود پہنچے بلکہ ان خبروں کو پہلے پوری طرح توثیق کرے اور سچ کو نا صرف عوام تک بلکہ عدلیہ تک پہنچائے تاکہ عدلیہ اس پر کاروائی کرنے پر مجبور ہو سکے۔
صحافت سے منسلک افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ غلط ، گمراہ کن، اور مسخ شدہ معلومات اور تصاویر شائع نہ کریں، اگر غیرمعمولی غلطی، گمراہ کن بیان اور حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا عمل سامنے آئے تو اسے فوری طور پر درست کرکے واضح کیا جائے اور اگر ضروری ہو تو معذرت بھی شائع کی جائے۔ پریس یا میڈیا اپنی مرضی یا خوشنودی سےکسی کی بھی حمایت کرنے کے لئے آزاد نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ پختہ حقائق، سچے بیانات اور شواہد کو سامنے رکھ کر ہی کوئی رپورٹ پیش کرے۔ کسی کی ہتکِ عزت کی صورت میں اگر پریس فریق ہے تو ضروری ہے کہ اس کی وضاحت میں درستگی اور غیرجانبدارانہ انداز اختیار کیا جائے اس وقت تک کہ جب تک کہ کوئی متقفہ مفاہمتی معاہدہ سامنے نہیں آجاتا یا جب کوئی معاہدہ سامنے آجائے تو اسے بھی شائع کیا جائے۔
ہم نے بار بار دیکھا ہے کہ صحافی کسی بھی مقدمے میں کسی ایک پارٹی یا شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت کے نجی اور خاندانی معاملات، گھریلو، صحت کا احترام نا کرتے ہوئے، اپنی رپورٹ کے ذریعے عدلیہ کے بالمقابل اپنا ایک میڈیا ٹرائل بھی چلانا شروع کردیتے ہیں، اس میڈیا ٹرائل کا سیدھا عدلیہ میں ہورہے قانونی ٹرائل پر مضر اثرات پڑتے ہیں، اس میڈیا ٹرائل کے اثر پولیس جانچ پر بھی پڑتے ہیں،ایک شفاف اور ایماندارانہ پولیس جانچ کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں، مقدمے کی سرکاری وکیل اور جج پر بھی پڑتے ہیں ساتھ ہی سماج کا بھی ایک ذہن بن جاتا ہے۔ اگر عدلیہ کو مقدمے کی سماعت کے دوران ملزمین کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا ہے تو بھی جج خود کو ایک بڑی کشمکش سے دوچار پاتا ہے، پہلی تو یہ کہ اگر وہ ملزم کو الزامات سے باعزت بری کرتا ہے تو سماج میں پیغام جائے گا کہ جج نے یقینا کسی دباو یا لالچ میں ملزم کو بری کیا ہے جو کہ سماج میں عدلیہ کی آزادی اور اس کے اعتماد کو کمزور کرتا ہے۔ وہیں دوسری طرف اگر ملزم کو سزا دی جائے تو یہ اس ملزم کے ساتھ ساتھ نظام انصاف اور دستور کے ساتھ بھی ناانصافی ہوتی ہے۔
صحافی کوقانون یا اخلاقیات یہ اجازت نہیں دیتاہے کہ کسی وہ کسی کو بلیک میل، پریشان یا خوفزدہ کرنے کی کوشش کرے، اگر کوئی شخص فون کرنے، تصویرلینے اور سوال کرنے سے منع کردے تو صحافی کو بھی رک جانا چاہیے، اگر وہ اپنی جگہ یا مکان پر صحافی کو مزید ٹھہرنے سے منع کرے تو اسے باہر آجانا چاہیے اور اس کا پیچھا نہیں کرنا چاہیے۔ذاتی صدمے اور غم کی صورت میں صحافی کا رویہ ہمدردانہ ہونا چاہئے اوررپورٹنگ کے دوران معاملے کی حساسیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ میڈیا ٹرائل کے ذریعے صحافی کو اپنی رپورٹنگ سے قانونی چارہ جوئی میں کسی طرح کی رکاوٹ کی وجہ نہیں بننا چاہئے۔
جب تک جرم میں براہِ راست تعلق ثابت نہ ہو اس وقت تک کسی جرم میں ملوث ملزم یا مجرم کے عزیزوں، دوستوں اور رشتے داروں کی شناخت ظاہر نہ کی جائے۔ اگر ممکنہ طور پر کوئی بچہ کسی جرم کا گواہ یا خود شکار ہو اس پر خصوصی توجہ دی جائے لیکن قانونی چارہ جوئی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے، گواہوں کی شناخت کو ظاہر کرکے نا صرف گواہوں کی زندگی خطرے میں ڈالی جاتی ہے بلکہ گواہوں کو خطرے میں ڈال کر متاثرین کو انصاف ملنے کی امید سے محروم کردیا جاتا ہے، کرمنل مقدمات میں انصاف کا مکمل دارومدار گواہوں کے بیانات پر ہوتا ہے۔ میڈیا ٹرائل ہمارے نظام انصاف کے لئے ایک بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے جو نہ صرف عوام بلکہ پولیس اور عدلیہ کے ذہن کو بھیپوری طرح پراگندہ کررہاہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ اجازت کے بغیر خفییہ کیمروں، ریکارڈنگ کے آلات، ذاتی فون کالز کی ریکارڈنگ، ای میلز اور میسجز، یا تصاویر اور ذاتی دستاویز کا بغیراجازت حصول یا انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات حاصل نہ کرے اور نہ ہی شائع کرے۔
عوامی مفاد کے پیش نظر کسی بھی جرم کو بے نقاب کرنا، مجرمین کو قانون کے دائرے میں لانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنا صحافت کی ذمہ داری ہے، سماج کو جرائم پیشہ افراد کی گرفت سے آزاد رکھنے میں میڈیا کا یقینا ایک اہم رول رہا ہے۔ ضروری ہے کہ پریس سے متعلق افراد کسی فرد یا ادارے کے بیان اور عمل سے عوام کو گمراہ ہونے سے بچانے کی کوشش کریں۔اظہارِ رائے کی آزادی یقینا عوامی مفاد کا ایک اہم حصہ ہے تاہم اس کے غلط استعمال کو روکنا بھی صحافت کی اہم ذمہ داری ہے۔
عدلیہ کی دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ سماج میں انصاف قائم کرے، کسی کے ساتھ کوئی ظلم یا انصافی نا ہو، اگر کوئی صحافی ، میڈیا چینل یا اخبار میڈیا ٹرائل کے ذریعے ، کوئی جھوٹی یا ایسی خبر پیش کرتا ہے جو سرے سے جھوٹی ہے یا حقائق کی غلط تصویر پیش کرکے کسی فرد، گروپ، فرقہ، مذہبی طبقہ یا سماج کےمخصوص حصہ کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ایسی خبر یا رپورٹ پر نوٹس لیتے ہوئے اس کے خلاف قانونی کاروائی کرے، عدلیہ اور صحافت دونوں ایک دوسرے کے لئے بنیادی جز ہیں جو ایک دوسرے کو سچ اور انصاف کے لئے ساتھ لے کر چلیں تو سماج میں انصاف قائم ہوسکتا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)