بھوپال :(ایجنسی)
مدھیہ پردیش میں وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ کی پولیس غنڈہ گردی پر اتر آئی ہے۔ سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہونے والی ایک تصویر میں بتایا گیا ہے کہ مدھیہ پردیش پولیس نے بی جے پی کے ایم ایل اے کے خلاف خبریں دکھانے والے صحافیوں کو ننگا کرکے تھانے میں کھڑا کر دیا ہے۔ ان میں سے اکثر صحافی اپنا یوٹیوب چینل بھی چلاتے ہیں۔
سینئر صحافی ڈاکٹر راکیش پاٹھک نے ایک ٹویٹ میں اس تصویر کے بارے میں بتایا ہے کہ یہ تمام صحافی مدھیہ پردیش کے سدھی ضلع سے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ایم پی کی سیدھی ضلع پولیس نے صحافیوں کو تھانے میں نیم برہنہ حالت میں کھڑا کرد یا ہے۔ان میں سے زیادہ تر یوٹیوب چینل چلاتے ہیں۔ان صحافیوں میں سے ایک کنشک تیواری کے بگھیلی یوٹیوب چینل کے 1.25 لاکھ سبسکرائبر ہیں۔
ڈاکٹر پاٹھک نے ٹویٹ میں لکھا- بتایا گیا ہے کہ صحافیوں نے بی جے پی ایم ایل اے کیدارناتھ شکلا کے خلاف خبریں چلائی تھیں جس کی وجہ سے وہ ناراض تھے۔ ان کے کہنے پر سدھی پولیس نے کنشک اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ لوگ فرضی آئی ڈی کے ساتھ بی جے پی حکومت اور ایم ایل اے کے خلاف خبریں لکھتے اور دکھاتے ہیں۔
تمام صحافیوں کے علاوہ اب لیڈروں نے بھی مدھیہ پردیش کے صحافیوں کی اس تصویر کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنا شروع کر دیا ہے۔ کانگریس لیڈر عمران پرتاپ گڑھی نے بھی اس تصویر کو ٹویٹ کیا ہے۔ یوپی اور ایم پی کے صحافیوں پر پولیس اور سیاستدانوں کے مظالم کی کہانیاں اکثر منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ لیکن ایم پی کے واقعہ نے تمام حدیں پار کر دیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک میں صحافیوں کی بڑی بڑی تنظیمیں موجود ہیں لیکن وہ احتجاج کرنے کے بجائے ایسے معاملات پر خاموشی اختیار کیے رکھتی ہیں۔ بہت سی صحافتی تنظیمیں مختلف نظریات کی پیروی کرتی ہیں اور ایک جیسا برتاؤ کرتی ہیں۔
یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ جب بھی ملک میں بڑے نام کے صحافیوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے تو وہ سرخیوں میں آجاتے ہیں اور فوراً تمام تنظیمیں ایجی ٹیشن کے لیے تیار ہوجاتی ہیں۔ لیکن بلیا اور سدھی (ایم پی) جیسے واقعات پر صحافتی تنظیموں کا ضمیر نہیں جاگتا۔
آزادی صحافت کے حوالے سے بھارت کا نمبر 142 واں ہے۔ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے مطابق بھارت میں مودی حکومت نے میڈیا پر مکمل کنٹرول کر رکھا ہے۔ صحافی چھوٹے چھوٹے واقعات میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
تاہم ایم پی کے اس واقعہ پر لوگوں نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔ لوگوں نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ جب یوپی کے بلیا میں تین صحافیوں نے نقل مافیا کے خلاف لکھا تو الٹا انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ مدھیہ پردیش میں ایم ایل اے کے خلاف خبریں دکھانے پر تمام صحافیوں کو برہنہ کرکے تھانے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ہندوستانی جمہوریت کے چوتھے ستون کی یہ حالت زار ہوگی۔ کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ کسانوں پر جیپ چڑھانے کے ملزم اور وزیر کے بیٹے آشیش مشرا کو ضمانت مل جاتی ہے، لیکن صحافیوں کو جیل میں رکھا جاتا ہے۔ مودی سرکار کی مخالفت کرنے پر عمر خالد کی ضمانت نہیں ہونے دی گئی۔ یہ کیسی جمہوریت ہے؟