نئی دہلی :
کووڈ- 19 کے طوفان کے اس دور میں دارالحکومت دہلی کے کئی طاقتور لوگ بے بسی محسوس کررہے ہیں۔ اب وقت ایسا نہیں ہے کہ صحاب نے ایک فون گھمایا اور اسپتال میں بیڈ کا انتظام ہوگیا۔ بڑی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ تب اپنے پریوار والوں تک کو وہ بڑی مشکل سے آکسیجن جیسی سہولت کاانتظام کرا پاتے ہیں۔ خاص ہو کر عام آدمی کا درد جھیلنے والوں میں آئینی عہدے پر بیٹھے لوگ، سپریم کورٹ کے جج اور مرکزی وزارت سے وابستہ اعلیٰ بیوروکریٹس بھی شامل ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے اپنوں کے لیے دوا ، بیڈ یا آکسیجن کا جگاڑ کراتو لیا مگر اس کے لیے انہیں سارے گھوڑے کھول دینے پڑے۔ سسٹم کے کئی نٹ بلٹ کھولنے ،کسنے پڑے۔ آئینی عہدے پر بیٹھی ایک ہستی کو اپنے پریوار کے ممبر کے لیے اسپتال میں بیڈ چاہئے تھا۔ انہوں نے تمام کوشش کی۔ ناکام رہنے کے بعد انہیں آخر میں سیاسی قیادت سے مدد مانگنی پڑی، تب جا کر ان کو بیڈ مل سکا، لیکن اس اسپتال میں نہیں جہاں پر وہ چاہتے تھے۔
ان ہی کی طرح ایک جج ہیں، سپریم کورٹ کے جسٹس کو اپنے رشتہ دار کے لیے بیڈ کا انتظام کرنے کے لیے بڑی مشقت کرنی پڑی۔ سپریم کورٹ کے ہی ایک ریٹائرڈ جج کی بیوی کو اہم دوا کی ضرورت تھی، اس کے لیےجج صاحب کو اپنے نوجوان وکلاء کے نیٹ ورک کو لگانا پڑا ، تب جا کر ان کی بیوی کو دوا مل سکی۔
ایسے ہی بہت بڑے بیورو کریٹس کو ایک آدمی کو ڈی آر ڈی او کے ولبھ بھائی پٹیل اسپتال میں داخل کرانے کے لیے کئی فون کرنے پڑے۔ یہ افسرسروس میں ہے اور وزارت میں بھی رہ چکا ہے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل میں کام کرنے والے ایک ماہر معاشیات کو ٹویٹر پر اپنے نیٹ ورک سے اپیل کرنا پڑی کہ انہیں ریمیڈسیور کے انجکشن درکار ہیں۔ تب انہیں دوا مل سکی ۔
مرکزی وزارت سے وابستہ بیوروکریٹ کا درد تو بہت ہی بڑا ہے۔ وہ پریوار کے کچھ ممبران کے ساتھ خود بھی کووڈ پازیٹیو ہیں۔ وہ یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ اگر کسی کو اچانک کسی سہولت کی ضرورت پڑی تو کہاں جائیں گے۔ نہیں پتہ کہ کون سا اسپتال میرا فون اٹھائے گا ۔ ان کی پریشانی واجب ہے۔ ایک بڑے اسپتال کے مالک کہتے ہیں کہ فون کو بند رکھنا ہی بہتر ہے۔ نہیں تو میں اخلاقی بیان دیتا رہوں گا کہ کسے بھرتی کرنا ہے اور کسی نہیں۔