تحریر:ہردیش جوشی
کمال خان کے جانے کے بعدصبح ایک دوست نے کہا کہ کمال کے بنالکھنؤ کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات صحافت کے تناظر میں تھی اوریہ سچ ہے کہ کمال کے بغیرلکھنؤ ہی نہیں پورے اتر پردیش کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔سیاست، ثقافت اور معاشرت ہر موضوع پر کمال باتیں کرتے تو اپنا الگ نقش چھوڑ جاتے۔ ایک تجربہ کار، مطالعہ پسند، سنجیدہ، مزاحیہ اور منجھے ہوئےصحافی تھےکمال خان، جمعرات کی شام کو این ڈی ٹی وی پر ایک نیوز پروگرام کیا تو کسی کو احساس نہیں تھا کہ چند گھنٹوں بعد وہ دنیا کو الوداع کہنے والے ہیں۔این ڈی ٹی وی انڈیا میں تقریباً 25 سال سے کام کر رہے کمال نے جمعہ کی صبح اچانک سینے میں درد کی شکایت کی اور پھر ان کے دل کی دھڑکن رک گئی۔ وہ 61 سال کےتھے لیکن کسی 40 سال کے شخص کی طرح فٹ نظر آتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ پسماندگان کے ساتھ ان کے دوستوں کو بھی چست درست کمال کی اس بے وقت موت پر بھروسہ نہیں ہو رہا ۔میں نے تقریباً 16 سال این ڈی ٹی وی میں کام کیا اور اس دوران اکثر کمال سے بات ہوتی رہی اور فیلڈ میں ملاقات بھی۔خالص سیاسی رپورٹس میں شاعری تلاش کرلینا اورشعر وشاعری سے اپنی رپورٹ کا اختتام کرنا تو ان کے مداحوں کو یادہے لیکن ایک ساتھی صحافی کی حیثیت سے میں نے ان کی کچھ دوسری خوبیوں کو دیکھا ہے جو مجھے بیش قیمتی لگتی ہیں۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شعری لبادے میں ٹی وی رپورٹس کو حقائق کے ساتھ پیش کرنے والے کمال نے روسی زبان پڑھی تھی اور ڈگری حاصل کی تھی۔ اس کے علاوہ انہیں انگریزی پر بھی عبور حاصل تھا۔سینئر صحافی آلوک جوشی یاد کرتے ہیں کہ اسی کی دہائی میں کمال لکھنؤ میں ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ میں روسی زبان کے مترجم کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔آلوک کا کہنا ہے کہ کمال نے ان کے ہی ساتھ 1987 میں پہلی بار امرت بازار رسالے میں کام شروع کیا۔ جمی جمائی سرکاری نوکری چھوڑ کر انہوں نے ایک ایسےکیرئیر کا انتخاب کیاجس میں کچھ بھی یقینی نہیں تھا ۔ شاید اس میں کسی بھی منصوبہ بندی سے زیادہ تقدیر کا رول تھا۔روسی اور انگریزی کے طالبعلم اور جان کار رہے کمال نے اردو اور پھر ہندی کا گہرائی سے مطالعہ کیاتھا۔ ان کی قصہ گوئی کا اندازمسحور کن تھا اور ان میں خبروں کو سونگھنے کی فطری صلاحیت تھی۔کمال نےامرت بازار کے بعد نوبھارت ٹائمس میں نوکری کی،لیکن جب اس اخبار کا لکھنؤ ایڈیشن بند ہوگیا تو کمال این ڈی ٹی وی چلےگئے اور اسٹار نیوز پر نظر آنے لگے۔آلوک کہتے ہیں کہ آگے بڑھنے اور زیادہ مواقع کے لیےصحافی اکثر دہلی آ جاتے ہیں، لیکن کمال نے لکھنؤ کو کبھی نہیں چھوڑا۔ اصل میں کمال کی زبان، تحریر اور آواز میں ایک لکھنؤ چھلکتا تھا۔ لکھنؤ بھی انہیں کبھی نہیں چھوڑنے والا تھا۔
صحافت کے ابتدائی دور میں وہ اپنا نام کمال حیدر خان لکھتے تھے،جس کو بعد میں بدل کر کمال ایچ خان کیا۔ ان کی اہلیہ اور صحافی روچی کمار کا تعلق ایک ہندو خاندان سے ہے۔ کمال کے گھر میں جو کاسموپولیٹن ماحول تھا وہ ان کے پیشہ ور کام میں صاف نظر آتا تھا۔نیوز ٹی وی میں لائیو رپورٹنگ کا دباؤ برداشت کرنا اور وقت پر ناظرین کوخبریں پہنچانا بعض دفعہ بہت زیادہ تناؤ پیدا کردیتا ہے۔صحافی اس تناؤ کو اسکرین پر منعکس نہیں ہونے دیتے،لیکن کمال سے(جب وہ اسکرین پر نہ ہوں اس وقت بھی) بات کرتے ہوئے وہ بڑے نارمل نظرآتے۔کسی بھی بڑی یا انتہائی اہم رپورٹ کو بریک کرتے ہوئے کمال نےکبھی بھی اس جذبے کو اپنے چہرے اور آواز پر حاوی نہیں ہونے دیا، جس کو ٹی وی کی نوٹنکی زیور سمجھ کر پہن لیتی ہے۔مجھے 2003 کا وہ زمانہ یاد ہے جب یوپی میں راجہ بھیا کے تالاب میں کنکال ملنے کی خبر آئی۔ میں ڈیسک پر ہی تھا اور کمال نے فون کرکےیہ خبر بریک کرنے کو کہا۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ خبر کی سنجیدگی کمال کےلفظوں میں تھی، ان کے لہجے میں کسی طرح کی کوئی سنسنی نہیں تھی ، اشتعال نہیں تھا جو اکثر ٹی وی رپورٹنگ میں جھلکتا ہے۔ نیوز ٹی وی کےنوجوان صحافی کےلیےیہ ایک بڑا درس تھا۔پوری خبر کمال نے بغیر کسی ڈرامائیت کےپیش کر دی۔
سال 2004 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلےلکھنؤ میں ساڑی کانڈ(جہاں بھگدڑ میں کئی خواتین کی موت ہو گئی تھی)کی رپورٹنگ میں بھی اسی صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا۔میں یہ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ٹی وی میں غیرمطلوبہ سنسنی یا اشتعال کا مظاہرہ ذرائع یا ناظرین کو متوجہ کرنے کا ایک ہتھیارسمجھا جاتا ہے اور اس کوان دنوں پاگل پن یا نوٹنکی کی حد تک استعمال کیا جاتا ہے،لیکن کمال اپنی رپورٹنگ میں اس کی جگہ صرف جانکاری پیش کرتے اور معاشرے اور سیاست سے متعلق قصے کہانیوں سے خبروں کو بھرپور اور دلچسپ بناتے۔کمال کی رپورٹنگ کی ایک بڑی خوبی تھی ان کا مطالعہ پسندہونا۔ انہوں نے رام کے کردار سے لے کر تین طلاق تک کئی اہم پروگرام کیے۔ جس طرح وہ قرآن سے کچھ حوالہ دیتے، اسی طرح گیتا اور رامائن کی چوپائیاں یا کہانیاں بھی سنا جاتے۔یہ مطالعہ پسندی مجھے صرف ان کی رپورٹنگ میں ہی نہیں بلکہ شخصیت میں بھی نظر آتی ہے۔ ان دنوں ہم جیسے بہت سے صحافی لکھنے کے نام پر ٹوئٹر یا فیس بک پر مائیکرو بلاگنگ تک محدود ہیں، لیکن کمال کے علم کا دائرہ واقعی کمال کا تھا۔ ایسی بنیادطویل عرصے کی محنت سے بنتی ہے۔صحافی وجئے ترویدی یاد کرتے ہیں کہ کمال کی گاڑی میں ہمیشہ 5-7 کتابیں ہوتی تھیں جن سے وہ رپورٹنگ کے دوران حوالے نقل کرتے تھے۔ ترویدی کہتے ہیں کہ کمال اپنی رپورٹنگ میں تو کسی سیاسی پارٹی کے حق میں نظر نہیں آئے، وہ عام زندگی میں بھی انتہائی منطقی اور فیاض تھے۔نوے کی دہائی میں این ڈی ٹی وی لائیونیوزکی دنیا میں نیا نیا ہی تھا (اس وقت این ڈی ٹی وی اسٹار نیوز کے لیے کام کرتا تھا) تو کمال کے گھر پرہی این ڈی ٹی وی کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ ہر پارٹی کے رہنما کمال کے گھر آیا کرتے اور بہت سے صحافی وہاں جمع ہوتے تھے۔ ان کی کسی سے دوستی یا دشمنی نہیں دیکھی۔ وہ بہت پیشہ ور تھے۔مجھے یاد ہےکہ ایک بار کمال نے یوپی کے انتہائی خستہ حال پرائمری ایجوکیشن سسٹم پر ایک طویل سیریز کی تھی۔ اس میں یہاں کے اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ سے عمومی سوالات کیے گئے تھے،جن کا جواب اساتذہ نہیں دے پائے۔ ایسی رپورٹ جوتعلیمی بدحالی کو ظاہر کرتی تھی ،لیکن اس میں شدید طنز بھی تھا۔مثال کے طور پر اساتذہ سے پوچھا گیا کہ ثانیہ مرزا کون ہیں؟ تو کئی اساتذہ نے جواب دیا کہ وہ مرزا غالب کے خاندان سے ہیں۔ ناظرین کا ایسے جواب پرقہقہہ لگانا لازمی تھا۔
آخر میں کمال نے اپنی پی ٹی سی (رپورٹ کے آخر میں رپورٹر کی جانب سے اسکرین پر کہے گئے الفاظ) سے سب کو جھنجھوڑ دیا تھا؛ جب انہوں نے کچھ یوں کہا – ہنس لیے، بہت مزہ آیا… جب جی بھرکر ہنس لیں تو ان لاکھوں بچوں کے لیے دو آنسو بہا لیجیے گا جنہیں یہ ٹیچر پڑھاتے ہیں۔کمال خان جیسےصحافیوں کو یاد کرنے کے لیے ایک دن یا ایک مضمون کافی نہیں۔ انہوں نے صحافت کےمعیار کو بلند کیا اور ان کو سچی خراج عقیدت یہ ہوگی کہ تنزلی کے اس دور میں چند نوجوان صحافی اس صبر وتحمل، سنجیدگی اور گہرائی کو اسکرین پر واپس لا سکیں۔
(یہ مضمون نیوز لانڈری پر شائع ہوا ہے۔ ان کی اجازت اور شکریہ کے ساتھ اس کویہاں پیش کیا جا رہا ہے)
(بشکریہ: دی وائر)