تحریر:قاسم سید
جب ہر طرف گہری خاموشی چھائی ہے ،کرناٹک ابل رہا ہے ۔حجاب تنازع نے ایک بار پھر آباد شاہین باغوں کی یاد دلادی ،حسب معمول اعلیٰ قیادت کی طرف سے مذمتی بیان جاری کردیا گیا،کسی نے دو دن لیے کسی نے ایک ہفتہ ۔مسلم پرسنل لا ءبورڈ نے تو حد کردی خالص شرعی مسئلہ پرلب کشائی میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے جو خیر سے ترجمان بھی ہیں اتنے دن لگادیے ۔ممکن ہے ان کے نزدیک یہ علاقائی یا مقامی معاملہ ہو ،مگر جس معاملہ سے متعلق پرائم ٹائم میں بحث ہو۔ کی ریاستوں میں الیکشن ہورہے ہوں اور اخبارات میں مضامین لکھے جارہے ہو۔مسلم لڑکیاں آئینی حق کی بازیابی کے لیے قانونی دائرہ میں جدوجہد کررہی ہوں اور اس کے لیے دھرنا مظاہرہ کے ساتھ قانونی کارروائی کا راستہ بھی اپنا رہی ہوں تو اس کی سنگینی کا اندازہ ہونا چاہیے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی قیادت خود ان کے ہاتھ میں ہے ۔لاکھ کوشش کے باوجود وہ مشتعل نہیں ہوئیں، قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیا ہے ۔سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کررہا ہے جس میں بھگوا بریگیڈ ایک باحجاب لڑکی کے خلاف نعرے لگارہا ہے، اس کو زچ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، مگر قربان جائیے اس لڑکی کے عزم و حوصلے پر ،اس کے چہرے پر بدحواسی،پشیمانی ،گھبراہٹ اور خوف کی جگہ ہمت،بہادری اور اعتمادکا نور ہے، وہ ’جے شری رام‘ کے جواب میں ’اللہ اکبر ‘کہتے ہوے منزل تک پہنچتی ہے۔ گیدڑوں کی بھیڑ شیرنی کا کچھ نہ بگاڑسکی۔ یہی تو وہ عورت ہے جس کے سحر سے شبستان وجود لرزتا ہے، جو کسی قیمت اپنا تشخص نہیں کھونا چاہتی ،یہی تو وہ جذبہ ہے جو مایوسی کے اندھیروں میں امیدوں کا چراغ ہے ۔ان حوصلوں کو مرنے نہیں دینا ہے ۔ ہمیں یقین ہے تابناک مستقبل کے چشمے انہی ایڑیوں سے پھوٹیں گے۔