بنگلور :(ایجنسی)
حجاب تنازع کے درمیان سوشل میڈیا پر دو تصویروں کا ایک کولاج وائرل ہو رہا ہے، دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ کولاج میں پہلی تصویر اسی مسکان کی ہے، جنہیں کرناٹک میں حجاب پہن کر اسکول جاتے وقت نوجوانوں کی بھیڑ نے گھیر لیاتھا۔
کولاج کو شیئر کرکے یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسکان عام طور پر جینز ٹی شرٹ میں تصویر لیتی ہیں اور اسکول جاتے وقت پروپیگنڈہ کے لئے انہوں نے حجاب اور برقع پہنا ۔
تاہم جانچ پڑتال میں سامنے آیا کہ کولاج میں ایک تصویر اس واقعہ کی ہے جب کرناٹک میں حجاب پہنی اسکول جاتے وقت کچھ نوجوانوں نے گھیر لیاتھا۔ لیکن دوسری تصویر میں مسکان نہیں بلکہ کرناٹک میں جنتا دل سیکولر پارٹی کی لیڈر نجمہ نذیر ہیں۔
دعویٰ
وائرل ہو رہے کولاج میں پہلی تصویر میں لکھا ہے- یہ ہے عام زندگی ہے، اور پھر حجاب پہنے لڑکی کی تصویر میں لکھا ہے- یہ ہے پروپیگنڈہ زندگی ۔
فیس بک پر بڑے پیمانے پر یہ فوٹو اسی دعوے سے وائرل ہو رہی ہے ۔
کئی صارفین نے اس تصویر کو ٹوئٹر اور فیس بک پر شیئر کیا۔ دعویٰ کرنے والی پوسٹ کے آرکائیو تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
تحقیقات میں ہمیں کیا ملا؟
گوگل پر وائرل تصویر کو ریورس سرچ کرتے ہوئے ہمیں یہی تصویر نجمہ نذیر چکنرالے نامی فیس بک پروفائل میں ملی۔ فیس بک پر یہ فوٹو 13 جولائی 2018 کو اپ لوڈ کی گئی تھی۔
اس تصویر کو اس فیس بک اکاؤنٹ کی دیگر کئی تصاویر کے ساتھ ملانے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اسی لڑکی کی تصاویر ہیں۔ وائرل تصویر کو 2020 کو اپ لوڈ کی گئی ایک اور تصویر کے ساتھ ملانے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تصویر نجمہ نذیر کی ہے۔
حجاب میں اسکول جانے والی لڑکی، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، دراصل مسکان ہے۔ تنازع کے بعد مسکان کا انڈین ایکسپریس نے انٹرویو کیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ دونوں لڑکیاں الگ الگ ہیں جنہیں سوشل میڈیا پر ایک بتایا جا رہا ہے۔
نجمہ نذیرکے فیس بک اکاؤنٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ’جنتا دل سیکولر‘ پارٹی کی رکن ہیں۔ فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ آلٹ نیوز کے ساتھ بات چیت میں نجمہ نذیر نے تصدیق کی کہ وائرل ہونے والی تصویر میں وہ وہی ہیں۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر کولاج شیئر کرتے ہوئے جو دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ درست نہیں ہے کہ اس میں پہلی تصویر حجاب والی لڑکی مسکان کی ہے۔