کاس گنج:(ایجنسی)
اترپردیش کے کاس گنج میں پولیس حراست میں مردہ پائے گئے ایک مسلم نوجوان کے کزن نے الزام لگایا ہے کہ اس کے خاندان کو 10 لاکھ روپے اور سرکاری نوکری کی پیشکش کی گئی کہ وہ ڈپریشن کا شکار تھا اور اہل خانہ اس کی موت کی تحقیقات نہیں چاہتا۔ پولیس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
دی پرنٹ کی رپورٹ کے مطابق محمد صغیر نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے اسے ایک لیٹر لکھوایا ، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 22 سالہ الطاف ڈپریشن کا شکار تھا ، جس کے بعد اس کے والد چاند میاں سے انگوٹھا لگوا کر اسے جواز بنا یا گیا۔
صغیر نے بتایا کہ جب لیٹر پر ’دستخط‘ کیے جانے کے وقت چاند میاں کے ایک بھائی شاکر علی بھی موجود تھے اور ساتھ میں الطاف کی والدہ اور ایک سماجی کارکن ڈاکٹر فاروق بھی تھے۔ جنہوں نے ’ثالثی‘ کا کام کیا۔
منگل کو الطاف کاس گنج پولیس اسٹیشن کے باتھ روم میں مردہ پایا گیا تھا ۔ مانا جا تا ہے کہ اسے ایک کیس کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا تھا، جس میں ایک نابالغ ہندو لڑکی اس کے ایک دوست کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ الطاف نے مبینہ طور پر اپنی جیکٹ کی ٹوپی کی ڈوری سے خود کو پھانسی لگا لی تھی، لیکن اس کا اہل خانہ پولیس کی ’ خودکشی ‘ کی تھیوری سے متفق نہیں ہے ۔ دی پرنٹ نے پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھی ہے، جس میں موت کی وجہ ’ دم گھونٹنا ‘ بتایا گیا ہے اور اس میں جسم میں باقی حصہ پر کسی زخمی کے نشان کا کوئی ذکر نہیںہے ۔
اس معاملے کی عدالتی انکوائری کا حکم دیا گیا ہے، اور پانچ پولیس اہلکاروں جن میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر وریندر سنگھ اندوریہ بھی شامل ہے۔ معطل کردئے گئے ہیں۔
لیٹر میں ، جسے دی پرنٹ نے دیکھا ہے، چاند میاں دعویٰ کررہے ہیں کہ ’ میرے بیٹے کی موت خود کشی سے ہوئی، جب پولیس اسے ایک کیس کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے لے گئی تھی‘، اس میں آگے کہا گیاہے ،’ وہ ڈپریشن سے متاثرہ تھا، پولیس اسے اسپتال بھی لے گئی ، لیکن وہاں اس کی موت ہوگئی ۔ مجھے پولیس سے کوئی شکایت نہیں ہے اور نہ ہی میرا پریوار یا میں اس معاملے میں کوئی جانچ چاہتے ہیں۔‘
صغیر نے بتایا کہ اس لیٹر پر منگل کی شام دستخط کئے گئے۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ 9 نومبر کی شام کو ہوا تھا، اب معطل ہو چکے اسٹیشن ہاؤس آفیسر وریندر سنگھ اندوریہ ، سرکل آفیسر کاس گنج سٹی دیپ پنت اور کچھ دیگر اہلکار اس میٹنگ میں موجود تھے، جہاں سے یہ اتفاق رائے ہوا تھا۔
’میں وہاں چاند میاں اور ان کے بھائی شاکر علی کے ساتھ موجود تھا۔ ہمارے ساتھ کوئی تشدد نہیں ہوا، لیکن ہم سے کہا گیا کہ لیٹر پر دستخط کریں، ورنہ نتائج بھگتنے پڑیں گے۔‘ صغیر نے بتایا کہ پولیس والوں نے تیار شدہ لیٹر کے ساتھ ان سے ملے تھے، جسے ایک سپاہی نے اسے بلاکر لکھوایا تھا۔
اس نے مزید کہا کہ اس نے جو کہا میں نے اسے لکھ دیا، کیونکہ مجھے لگا کہ ایک اتفاق رائے بن گئی ہے اور پھر چچا نے اس پر دستخط کردیے، پولیس استحصال کے ڈر سے کوئی کھلے طور پر یہ باتیں کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ڈیل ہوتے ہی ‘ 5 لاکھ روپے چاندمیاں کےاکاؤنٹ میں فوراً ٹرانسفر کر دیے گئے اور پولیس نے مبینہ طور پر اس سے وعدہ کیا کہ باقی رقم پریوار کو کسی سرکاری رقم کے تحت دے دی جائے گی۔ صغیر نے مزید کہاکہ ‘’ہمیں نہیں معلوم کہ وہ اسکیم کیا ہے۔‘
کاس گنج کے سرکل آفیسر دیپ کمار پنت نے صغیر کے الزامات کو’سراسر جھوٹ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور کہا کہ پیش کی گئی رقم ’معاوضہ‘ تھی۔انہوں نے دی پرنٹ کو بتایا،’اس کے خاندان کی مالی حالت کو دیکھتے ہوئے، ہم نے معاوضے کی پیشکش کی تھی۔ خاندان ہر لمحہ اپنا بیان بدل رہا ہے۔ یہ سب سراسر جھوٹ ہے۔‘