تحریر: تولین سنگھ
کشمیر میں شروع ہونے والے تشدد کے کھیل نے وادی میں 30 سال پرانی یادیں تازہ کر دی ہیں۔تب جنوری 1990 میں مصنفہ سری نگر میں تھیں ، چن چن کر پنڈتوں کو مارا جا رہا تھا۔ مساجد سے بھیجے جارہے پیغام کاایک ہی مطلب تھا کہ وادی میں صرف مسلمانوں کو رہنے کا حق ہے ۔ نوجوانوں کے ایک گروپ نے مصنفہ کو بھی سرپر کپڑا نہیں رکھنے کے لیے مجبور کیاتھا اور مصنفہ کو جگہ چھوڑ کر جاناپڑا تھا۔ ایک بار پھر ٹارگیٹ کلنگ تیز ہوئی ہے ۔ غیرمسلموں کو بھاگنے کے لیے جان لینے کا سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ یہ خطرناک ہے ۔
جس دن بھارت نے طالبان حکومت کو تسلیم کیااسی دن افغانستان میں اعلان کیا گیاکہ خود کش حملے کے لیے تیار ہونے والے نوجوان کےاہل خانہ کو معاوضہ دیا جائے گا۔ ظاہر ہے خود کش حملے جھیلنے کےلیے اب ہمیں بھی تیار رہنا ہوگا ۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کا استقبال ہے۔ اب تک دہشت گردی ختم ہونے کا مقصد پورا نہیں ہوا ہے، لیکن کل ہی بتایا گیا ہے کہ کشمیر کو ریاست کا درج دیا جائے گا ۔ مرکزی سرکار کی لاکھ کوششوں کے باوجود سیاسی لیڈروں کی نئی نسل تیار نہیں ہو سکی ہے ۔ سرکار نے کشمیر کی سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں سے مدد بھی مانگی ہے۔ مگر کشمیر میں تشدد روکی نہیں جاسکی ہے ۔ کشمیری پنڈتوں کو وادی میں بسانے کی صورت حال تو نہیں بنی ایک بار پھر وہاں رہ رہے غیر مسلموں کی جان خطرے میں ہے۔ ایسے میں یہ مانا جا رہا ہے کہ آرٹیکل 370 رد ہونے کا مقصد بے کار ثابت ہو رہا ہے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)