:وجاہت حبیب اللہ
دادرا اور نگر حویلی اور دمن اور دیو کے ایڈمنسٹریٹر پرفل کھیڑا پٹیل نے دعویٰ کیا کہ لکش دیپ میں گزشتہ 70 سالوں میں کوئی ترقی نہیں ہوئی ہے۔ دسمبر 2020 سے وہ لکش دیپ کے بھی ایڈمنسٹریٹر ہیں اورانہوں نے ڈرافٹ بل پیش کیا ۔
ایسے علاقے میں گئو کشی پر پابندی جہاں کوئی گائے نہیں ہے۔
جہاں کوئی کرائم نہیں ہے، وہاں غنڈہ ایکٹ (پرونٹیو ڈینٹیشن لاء)
قبائلی ملکیت کو کمزور کرنے کے لئے ایک مسودہ قانون۔ لینڈ ڈیولپمنٹ کے نام پر جس میں عدالتی سلوک کاکوئی متبادل نہیں ہے۔ اس کے مطابق ان جزروں کے سڑکوں کو چوڑا کرنے کی تجویز ہے، جس میں سڑک کی زیادہ سے زیادہ لمبائی صرف 11 کلومیٹر ہے۔
دیگر تجاویز میں اس مرکز کے زیر انتظام علاقے میں شراب پر موجودہ پابندی کو ہٹانا، سب سے برا، پٹیل کا یو ٹی میں کبھی کبھی آنا اور آنے جانے کے لیے کورآنٹین سے جڑے قوانین میں چھوٹ دینا، اس سے ان جزیروں پر بھی وبا پہنچ گئی ہے، جہاں اب تک معاملے نہیں تھے۔
لکش دیپ کے لئے 1989 ’ ‘آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ‘ نے کیا تجویز کی تھی؟
لکش دیپ کا جزیرہ نما بحیرہ عرب کے درمیان جنت کی طرح ہے ،36 کورل آئی لینڈ کا یہ جزیرہ 1956 سے مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے۔ ان میں سے 10 جزائر کے 32 مربع کلومیٹر کے رقبے میں 66 ہزار لوگ رہتے ہیں۔ کیرل کے ساحل سے 200 سے 400 کلومیٹر تک پھیلا یہ جزیرہ بھارت کو ہند بحر ہند میں 4 لاکھ مربع کلومیٹر کا ایک خصوصی اقتصادی زون (EEZ) فراہم کرتا ہے۔
یہاں ساحل سمندر اسکیپ جٹ ٹونا مچھلی اور یلیو رنگ کی فن ٹونا مچھلی پائی جاتی ہے ، جواسے سمندر فیشنگ گراؤنڈ بناتی ہے۔ یہاں مینی کائے کے علاوہ ہر جگہ ملیالیم بولی جاتی ہے ، جبکہ مینی کائے میں محل (Maha) زبان محل 17 ویں صدی میں مالدیپ کی زبان سے ملتی جلتی ہے ۔
اس بنیادی طور پر مسلم اکثریتی والے معاشرے میں ایک ازدواجی نظام تھا ، جہاں مشترکہ خاندانوں کی سربراہی خواتین کی ہوتی تھی۔ کم از کم 1990 تک ایسا ہی تھا ، جب میں 1987-90 کے درمیان وزیر اعظم کے دفتر میں کام کرنے کے بعد یہاں ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوا تھا۔ اس کام کے دوران میں آسانی سے اس اصطلاحی کواپنے کیریئر کی سب سے خوشحال تفویض سمجھتا ہوں۔
بھارت کے جزائر کے لیے خصوصی طور سے قائم ’آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی‘ ( جس کی سربراہی وزیر اعظم کرتے ہیں) نے 1988 میں لکش دیپ کی راجدھانی کاورتی میں ہندوستانی جزیرے کے علاقوں کی ترقی کے فریم ورک کی منظوری دی۔ اس کی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ’جزیرہ نما جزائر کے لئے ماحولیاتی طور پر مستحکم حکمت عملی ۔ سمندری وسائل کا بہتر استحصال اور زمینی وسائل کے استعمال میں زیادہ احتیاط ہے۔ 1989 میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں لکش دیپ کے لئے 6 سفارشات تھیں۔
میری مدت ملازمت کے اختتام تک اس یو ٹی کے پاس اپنا ایئر پورٹ اور ایک ترقی پذیر سیاحت کی صنعت تھی ، جس میں بنگارام میں ایک بین الاقوامی سیاحتی ریسورنٹ بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ 1993 کی آئینی ترمیم سے پہلے ہی یہاں پنچایتی راج کو سیاسی سینٹرلائز بنانے کے لئے اپنایا گیا تھا۔
(بشکریہ : دی کوئنٹ)