تحریر: طاہرہ سید
قدرت کا قانون ہے کہ جو شخص اس دنیا میں آیا ہے اسے اس دنیا سے واپس بھی جانا ہوگا۔ ہم میں سے تقریباﹰ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنے کئی متعلقین کو آخری سفر پر روانہ کرنے کا تجربہ رکھتا ہے۔ ہر ثقافت میں اپنے پیاروں کو آخری سفر پر روانہ کرنے کے موقع پر مختلف رسومات ادا کی جاتی ہیں ۔ پاکستانی معاشرے میں ہمیں اس کے کئی رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ چند دن پہلے ہمارے حلقہ احباب میں سے تقریباً پینتیس چالیس سال کی عمر کا شخص دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا۔ ان کی بیگم اس اچانک موت کو قبول ہی نہیں کر پا رہی تھیں اور شاک کی کیفیت میں تھیں۔ لیکن خاندان کی خواتین کو اس موقع پر زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ ان کی ناک سے لونگ اتروا لی جائے اور ان کے ہاتھ سے چوڑیاں بھی اتارنی ضروری ہیں، تاکہ انہیں باقاعدہ طور پر بیوہ کا اسٹیٹس دیا جا سکے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ خواتین ان کی لونگ اتارنے کے لیے زورآزمائی کر رہی تھیں اور مرحوم کی بیگم اس بات پر غش کھانے لگتیں کہ ان کے شوہر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
اگر ان کے زیورات فوری طور پر نہ اتارے جاتا تو کیا میت کو کوئی تکلیف پہنچنے کا خدشہ تھا؟ انسان ذہنی طور پر کسی حادثے کو قبول کرتا ہے پھر اس کے بعد اس کو برداشت کرنے کا مرحلہ آتا ہے اور مزید چند دن لگتے ہیں کہ وہ اس صدمے سے سنبھل کر نارمل زندگی کی طرف لوٹ سکے۔ لیکن ہمارے یہاں خاندان والے اور دیگر دوست احباب فوری طور پر فوتگی والے گھر کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے کر ایکشن پلان شروع کر دیتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے فوتگی والے گھر میں لوگ صرف یہی چیک کرنے آتے ہیں کہ انتظامات کیسے ہیں اور گھر والوں کے تاثرات کیسے ہیں۔ گھر کے تمام مرد حضرات میت کو دوسرے شہر سے لانے کے انتظامات اور اس کے بعد یہاں تدفین کے انتظامات میں اس قدر بھاگ دوڑ کا شکار تھے کہ انہیں اپنا غم منانے کی مہلت تک نہیں مل رہی تھی۔ ساتھ ہی گھر میں موجود مہمانوں کے لیے کھانے کے انتظامات بھی دیکھنا ضروری تھے۔ لیکن اس مشکل گھڑی میں بھی کچھ لوگ اس فکر میں مبتلا نظر آئے کہ چہرے پر غم کے آثار زیادہ نہیں لگ رہے۔ ساتھ میں اس بات کی بھی پوری طرح سے فکر کی جاتی ہے کہ دوسرے شہروں یا دوسرے ملکوں میں رہنے والی اولادیں بروقت پہنچیں یا نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ لوگ شاید میت پر بھی صرف گوسپ کرنے ہی جاتے ہیں۔ بظاہر یہ باتیں بہت معمولی محسوس ہوتی ہیں لیکن ورثاء سے پوچھیں کہ ان کے دل پر ایسے تبصرے سن کرکیا گزرتی ہے۔
موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے کسی کو انکار نہیں اور ہم میں سے ہر شخص کو اس تجربے سے گزرنا ہے۔ اور ہم میں سے تقریباﹰ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنے سے پہلے مرنے والوں کو رخصت کرتا رہتا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ جب کسی اور کے گھر میں میت ہوتی ہے تو وہاں آنے والے اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ وہ خود بھی اس تکلیف سے گزر چکے ہیں۔ یا شاید وہ ایسے تبصرے اور ایسی باتیں کرکے اپنا بدلہ لے رہے ہوتے ہیں کہ جب ہمارے گھر میں یہ صورتحال تھی تو لوگوں نے بھی ایسے ہی تبصرے کیے تھے۔
فوتگی والے گھر سے واپسی پر جس طرح کے تبصرے سننے کو ملتے ہیں وہ ہماری ذہنی سطح کا پتا دیتے ہیں۔ کس نے کیا پہنا تھا یا کس کس کے چہرے پر میک اپ کے آثار بھی نظر آ رہے تھے۔ حتٰی کہ ورثاء کے بارے میں ایسے تبصرے بھی کیے جاتے ہیں کہ ”فلاں بیٹی یا بہو تو کافی خوش لگ رہی تھی ایسا لگ رہا ہے جیسے بڑے میاں یا بڑی بی سے جان چھوٹنے پر مطمئن ہوگئی ہے‘‘۔ ہم کسی کے دل کا حال کیسے جان سکتے ہیں جو اس طرح کے تبطرے کریں۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ہر موقع پر صرف گوسپ کے لئے کوئی بات چاہیے ہوتی ہے۔ ادھر ادھر کی ہانکنے کے لیے کوئی موضوع چاہیے ہوتا ہے۔
میت کو دفنا کر گھر پہنچتے ہی دیگوں میں چمچوں کے کھڑکھڑا نے کی آوازیں اور بریانی کی خوشبو کسی تقریب کا ماحول بنا دیتی ہے۔ گھر والے تھکن سے اور غم سے نڈھال آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ کسی کو یہ فکر کہ سسرال والے کھانا کھائے بغیر نہ چلے جائیں، تو کسی کو یہ پریشانی کہ داماد کی آؤ بھگت میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ کوئی پانی کی فرمائش کر رہا ہوتا ہے تو کوئی ڈش میں بوٹیاں لانے کی آوازیں لگا رہا ہوتا ہے۔ اور اگر بالفرض گھر والے گوشت کے بجائے چنے کی بریانی مہمانوں کو پیش کر دیں تو پھر ان کے تبصرے دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ مرحوم کی چھوڑی ہوئی جائیداد کا تمام حساب کتاب وہیں بیٹھ کر لگا لیا جاتا ہے۔ کسی کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ جائے تو اسے سب سے پہلی فکریہ لگ جاتی ہے کہ گوشت والے چاول بننے ضروری ہیں۔ ورنہ تو خاندان والے جینا محال کر دیں گے کہ ساری عمر باپ نے کھلایا، اس کا آخری کھانا بھی ڈھنگ سے نہ دے سکے۔
سوچنے کی بات ہے کہ فوتگی والے گھر میں دعوت کا اہتمام کرنا کیوں ضروری ہے؟ اس حوالے سے یہ توجیح پیش کی جاتی ہے کہ گھر میں دور دراز سے آئے مہمان موجود ہوتے ہیں، جن کے لیے کھانے کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ آس پڑوس والے اور اسی شہر میں رہائش پذیر دیگر رشتہ دار بھی بغیر کھانا کھائے نہیں ٹلتے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ اس صدمے سے نڈھال خاندان کو دلاسہ دینے گئے ہیں، دلاسہ دیجیے اور اپنے گھر واپس لوٹیے۔ اگر کھانے کا وقت ہے اور بھوک ستا رہی ہے تو بازار سے کچھ لے کر کھا لیں لیکن گھر والوں کو تکلیف دینے سے گریز کریں۔ اکثر اوقات خاندان والے کھانے کا اہتمام کر تو دیتے ہیں لیکن ہر کسی کے خاندان میں ایسے رشتہ دار موجود نہیں ہوتے جو اتنے بڑے مجمعے کے لیے اتنی ساری دیگیں پکوانے کے لیے تیار ہوں۔ لہذا اس صورتحال میں بنیادی ذمہ داری پھر گھر والوں کی ہی ہو جاتی ہے کہ وہ دیگوں کا آرڈر کریں۔ چاہے اس خرچ کے لیے ان کو کسی سے پیسے ادھار لینے پڑیں۔ یہ ایک ایسی رسم ہے جسے نظر انداز کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم سب چاہیں تو اس رسم کا خاتمہ ممکن ہے۔ میت کے ورثاء تھکن اور صدمے سے نڈھال ہوتے ہیں اور ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے کھانے کا انتظام کریں۔ نہ ہی انہیں ہوش ہوتا ہے کہ وہ کھانے کی طرف دھیان دیں۔ آس پڑوس سے ان کے لیے کچھ دن تک کھانا بنا کر بھیجنا ایک احسن عمل ہے۔ اگر صرف ایک خاندان کے کھانے کا انتظام کرنا ہو تو کسی پر اتنا بار نہیں ہوتا۔ لیکن اگر میت کے جنازے میں شامل دو سو تین سو افراد کے کھانے کا انتظام کرنا ہو تو یہ ایک بہت بھاری خرچہ آ پڑتا ہے۔ اور پھر سب اس موقع پر "لوگ کیا کہیں گے” کی فکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اخلاقیات ہی ایک آدمی کو انسان بناتی ہیں۔ آپ کے دل میں دوسروں کے دکھ درد کا احساس ہی آپ کو انسانیت کے درجے پر فائز کرتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم ایک میت کو دیکھ کر بھی یہ بات محسوس نہیں کرتے کہ انسان کتنا کمزور ہے اور کتنے مختصر وقت کے لیے اس دنیا میں آیا ہے۔ اگر آج ایک شخص چلا گیا ہے تو کل ہماری بھی باری آنی ہے۔ میت کے گھر والوں کے لئے آسانیاں پیدا کیجئے اور انہیں اس صدمے سے نکلنے میں مدد کیجیے نہ کہ ان کو مزید مشکلات کا شکار کیا جائے۔
(بشکریہ: ڈی ڈبلیو)