مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوچکا ہے، اسی مہینے میں آقا و مولانا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی، اسی ماہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی اور اسی ماہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم آخرت کی طرف کوچ فرمایا، اس طرح اس ماہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے ایک خاص مناسبت ہے، یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کی عظمت کا تقاضہ ہے کہ مسلمانوں کا کوئی دن اور کوئی لمحہ ایسا نہ ہو، جب اس کے دل کی دنیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد سے آباد نہ ہو؛ لیکن حیات محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ماہ کی خصوصی نسبت کی وجہ سے عام طور پر اس موقع پر زیادہ جلسے کئے جاتے ہیں، اخبارات ورسائل کے نمبرات نکلتے ہیں اور مختلف طریقوں پر سیرت طیبہ کے تذکرہ کو تازہ کیا جاتا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ صرف ایمان لانا ضروری ہے؛ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے انتہاء عظمت اور تمام چیزوں سے بڑھ کر محبت ہمارے دلوں میں ہو، یہ محبت ہمارے ایمان کا جز واور ہمارے دین کی اساس ہے اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے کہ اس امت کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا جو غیر معمولی جذبہ کارفرما ہے، دوسرے مذاہب کے متبعین میں اپنے پیشواؤں سے متعلق اس کا سوواں حصہ بھی نہیں ملتا، اور کیوں نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے بعد ہر مسلمان کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات سب سے محبوب ترین ہستی ہے، ا س کو اپنے وجود سے بھی بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور اگر اس کا سینہ اس جذبہ سے خالی ہو تو وہ مسلمان ہی باقی نہیں رہے گا۔
محبت کے تقاضوں میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ انسان محبت کا اظہار کرے، اللہ اور رسول کی محبت تو مؤمن کے لئے معراج ہے؛ لیکن انسان تو دنیا میں بھی جب کسی سے محبت کرتا ہے تو اسے اظہار محبت کے بغیر چین نہیں ملتا؛ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا فطری تقاضہ آپ سے محبت کا اظہار بھی ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ اظہار محبت کا طریقہ کیا ہو؟ —-تو محبوب کے لحاظ سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے، انسان کو اپنے والدین سے بھی محبت ہوتی ہے اور اولاد سے بھی، استاذ اور شیخ سے بھی محبت ہوتی ہے اورشاگرد و مرید سے بھی، شوہر و بیوی بھی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اور دوستوں میں بھی باہم محبت کا تعلق ہوتا ہے؛ لیکن ہرجگہ اظہار محبت کا ایک ہی انداز نہیں ہوتا،اظہارِ محبت میں دو باتوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھا جاتا ہے، محبوب کا مقام ومرتبہ اور محبوب کی پسند، مقام ومرتبہ کا لحاظ بے حد ضروری ہے، ایک شخص اپنے بچوں سے پیار کرتے ہوئے محبت کے جو بول بولتا ہے اور جو طریقہ کار اختیار کرتا ہے، اگر وہی الفاظ اپنے ماں باپ سے کہے اور وہی طریقہ ان کے ساتھ اختیار کرے تو یہ محبت کی بجائے بے ادبی اور گستاخی ہوجائے گی، اسی طرح کسی شخص کو جو شئ پسند نہ ہو، آپ اس کی پسند و ناپسند کی پرواہ کئے بغیر اس کی ناپسندیدہ شئ بطور اظہار محبت کے اس کے سامنے پیش کردیں تو یا تو اسے بے وقوفی سمجھا جائے گا یا تمسخر۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اظہار میں بھی ان دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھنا ضروری ہے، ہمارے بعض شعراء نعتیہ اشعار کچھ اس طرح کہتے اور پڑھتے ہیں کہ جیسے اپنی محبوبہ کے گیسو وعارض کی تعریف کررہے ہوں اور اس کے سراپا کا نقشہ کھینچ رہے ہوں، ظاہر ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اظہار محبت کا ناشائستہ طریقہ ہے، اخبارات میں ایک طرف ایسا اشتہار ہوتا ہے، جس کا تعلق ملبوسات کی دکان سے ہے اور جس میں نیم عریاں شکل میں آنچل لہراتی ہوئی ایک عورت کھڑی ہوئی ہے اور ٹھیک اسی کی پشت پر یا اوپر نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ذکر ہے، سوچئے، کیا یہ بے ادبی نہیں ہے؟ کاغذ کی ایسی جھنڈیاں تیار کی جائیں، جن پر کلمہ طیبہ ہو اور جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک نام ہو اور یہی جھنڈیاں چند دنوں کے بعد زمین میں قدموں سے پامال کی جائیں، کیا یہ بے احترامی نہیں ہے؟افسوس کہ اظہار محبت کے نام پر کتنی ہی ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کے خلاف ہیں۔
بہت سی باتیں جو اختیار کی جاتیں ہیں، وہ ایسی ہیں، جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی انسان کو تکلیف پہنچانے کے عمل سے منع فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کو کاٹنے سے منع فرمایا؛ کیوں کہ اس کی وجہ سے انسان سایہ سے محروم ہوتا ہے اور ماحولیاتی توازن متأثر ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کی نالی راستے پر نکالنے سے روکا؛ تاکہ تعفن پیدا نہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ میں کچرا اور تکلیف دہ چیزیں ڈالنے سے منع فرمایا، یہاں تک کہ ارشاد ہوا کہ راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا بھی ایمان میں داخل ہے: ’’وأدناہا إماطۃ الأذی عن الطریق‘‘ (صحیح مسلم، باب شعب الایمان، حدیث نمبر: ۱۶۲) تکلیف دہ چیزوں میں راستہ کی رکاوٹ بھی ہے، راستہ میں ایسی چیزیں رکھ دینا کہ ٹریفک کا بہاؤ متأثر ہوجائے، اس طرح کھڑا ہوجانا کہ چلنے والوں کے لئے رکاوٹ پیدا ہوجائے اُس اذی ، (تکلیف دہ چیز) میں داخل ہے، جس کے ہٹانے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے۔
ایسی رکارڈ نگ لگانا کہ محلہ کے لوگوں کے لئے سونا دشوار ہوجائے یا بیماروں کو تکلیف ہونے لگے، ایذا ہی کی ایک شکل ہے، حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت کسی جگہ جاتے تو ایسی آواز میں سلام فرماتے کہ جو لوگ بیدار ہو ں وہ سن لیں اور جو لوگ سوئے ہوئے ہوں، ان کی نیند میں خلل واقع نہ ہو: ’’۔۔۔۔ فیجیئ من اللیل فیسلم تسلیما لا یوقظ نائما ویُسمع یقظان‘‘ (مسلم، حدیث نمبر: ۲۰۵۵)یہاں تک کہ آپ انے قرآن مجید بھی بہت اونچی آواز میں پڑھنے کو پسند نہیں فرمایا، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو زور زور سے قرآن مجید پڑھتے ہوئے سنا تو پردہ ہٹایا اور فرمایا کہ تم سب اپنے پروردگار سے سرگوشی کررہے ہو؛ لہٰذا ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچاؤ اورقرآن پڑہنے میں ایک دوسرے سے آواز بلند نہ کرو: ’’ألا إن کلکم مناج ربکم فلا یؤذین بعضکم بعضا، ولا یرفع بعضکم علی بعض في القراء ۃ‘‘ (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۱۳۳۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہنے میں بھی بہت بلند آواز کو پسند نہیں فرمایا، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب ہم بلندی پر چڑھتے تھے تو تکبیر کہتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنے آپ پر نرمی سے کام لو، تم کسی ایسی ذات کو نہیں بلارہے ہو، جو سنتا نہ ہو یا موجود نہ ہو؛ بلکہ اس خدا کو پکار رہے ہو، جو خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا اور تم سے قریب ہے: ’’لا تدعون أصم ولا غائبا تدعون سمیعا بصیرا قریبا ‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: ۸۳۸۶، مسلم، حدیث نمبر: ۲۷۰۴) اس سے معلوم ہوا کہ ایسے ریکارڈ بجانا کہ جس کی آواز لوگوں کے لئے تکلیف دہ ہو اور جلسوں کے اسپیکر اتنی دور دور تک پھیلادینا کہ لوگوں کی نیند میں خلل ہوجائے، ایسے طریقے ہیں جو ہمارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہیں تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فضول خرچی نہایت ناپسند تھی، قرآن مجید میں تقریباً بیس آیتوں میں فضول خرچی کو منع کیا گیا ہے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ کھانے اور کپڑے ہی میں نہیں؛ بلکہ صدقہ کرنے میں بھی اسراف نہ ہونا چاہئے: ’’کلوا وتصدقوا والبسوا في غیر إسراف‘‘ (نسائی عن عبد اللہ بن عمرو ص، حدیث نمبر: ۲۳۹۹) —- صدقہ میں اسراف کا مطلب یہ ہے کہ کسی خیر کے کام میں ضرورت سے زیادہ خرچ کردیا جائے، یا اتنا خرچ کردیا جائے کہ خود دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے حالات پیدا ہوجائیں، فضول خرچی کی دو صورتیں ہیں: کسی جائز کام میں ضرورت سے زیادہ خرچ کیا جائے یا کسی بے جا کام میں خرچ کیا جائے —– اب غور کریں تو ربیع الاول میں اظہار مسرت کے لئے جو طریقے اختیار کئے جاتے ہیں، ان میں بعض صورتیں یقیناً فضول خرچی کے دائرے میں آجاتی ہیں، یہ اللہ اور اس کے رسول کو ناراض کرنے والی بات ہے نہ کہ ان کو خوش کرنے والی۔
ایک بات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو بہت ہی ناپسند تھی، وہ ہے غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنا، یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لباس وپوشاک اور تہذیب و تمدن میں بھی غیرمسلموں کی مماثلت کو ناپسند فرماتے تھے؛ لیکن خاص کر دینی امور میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات حد درجہ ناپسند تھی؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی اور قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ ان ہی میں شامل ہے: ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘ (ابوداؤد، حدیث نمبر: ۴۰۳۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے نکلنے، سورج کے نصف آسمان پر رہنے اور سورج کے ڈوبنے کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا؛ اس لئے کہ جو قومیں آفتاب کی پرستار تھیں، وہ ان ہی اوقات میں آفتاب کی پوجا کیا کرتی تھیں، یہودی دیر سے روزہ افطار کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو افطار میں عجلت کا حکم دیا، یہودی دس محرم کو روزہ رکھتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ مزید ایک روزہ ملاکر روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، (سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۷۶۰) اگر اس پس منظر میں دیکھیں تو دیپ جلانا، چراغاں کرنا ہمارے ہندو بھائیوں کا شعار ہے، وہ چراغ جلاکر دیوالی مناتے ہیں اور اس سے ان کا ایک مذہبی تصور متعلق ہے، عیسائی حضرات کرسمس کے موقع پر پنج پہلو ستاروں کی شکل میں روشنی کا اہتمام کرتے ہیں اور ان کے یہاں بھی اس سے ایک مذہبی تصور متعلق ہے؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ نے کسی اسلامی تقریب کے لئے اس کی دعوت نہیں دی یا اس طرح کا عمل نہیں کیا، اسی طرح رنگ پھینکنا ہمارے برادران وطن کا طریقہ رہا ہے اور وہ اس کے لئے مستقل طور پر ہولی کا تہوار مناتے ہیں، اسلام میں ایک دوسرے پر رنگ پھینکنے کا کوئی تصور نہیں ہے، غور کیجئے کہ کہیں ہم غیر مسلم بھائیوں کے مذہبی اور تہذیبی شعائر کی طرف تو قدم بڑھاتے نہیں جارہے ہیں؟
غرض کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات چُھپی ہوئی نہیں ہے؛ بلکہ وہ روشن آفتاب کی طرح ہم سب کے سامنے ہیں، ہم ان کو پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند وناپسند کو جان سکتے ہیں، اور اس کی ترازو میں اظہار محبت کے ان طریقوں کا تجزیہ کرسکتے ہیں، جن کو آج ہم نے اختیار کررکھا ہے۔
ہم اس ماہ میں ضرور اپنی خوشی کا اظہار کریں؛ لیکن طریقہ ایسا ہو کہ وہ شریعت کی میزان میں بھی درست ہو اور اس سے دینی نفع بھی ہو۔
اظہار مسرت کا ایک بہتر طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم لوگ اس یادگار مہینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے پڑھنے اور اپنی نئی نسل تک اس کو پہنچانے کا اہتمام کریں، اللہ کا شکر ہے کہ ہر زبان میں سیرت کا لٹریچر موجود ہے، یہ کتابیں مختصر بھی ہیں، متوسط ضخامت کی بھی ہیں اور ضخیم بھی، ہم خود ان کا مطالعہ کریں اور اپنے مطالعہ کونئی نسل تک پہنچائیں، خواتین اور بچوں کو سنائیں، آج صورت حال یہ ہے کہ مسلمان نوجوانوں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اورطلبہ و طالبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اولاد اور پاک بیویوں کے نام تک یاد نہیں، اگر ان سے آپ کے صحابہ کا نام دریافت کیا جائے تو چاروں خلفاء کے بعد کم لوگ ہوں گے جو کسی پانچویں صحابی کا نام بتاسکیں، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دس بیس واقعات بھی ان کو معلوم نہیں ہیں، کیا یہ بات محبت کے تقاضے میں داخل نہیں ہے کہ انسان اپنے محبوب کو جانے،پہچانے اور دوسروں سے اس کا تعارف کرائے؟ پس آئیے کہ اس مہینے کو ہم لوگ سیرت کے پڑھنے اور اپنی نئی نسل تک سیرت نبوی کو پہنچانے کا مہینہ بنائیں، اس کے لئے ایک منصوبہ بنائیں، کوئز پروگرام منعقد کریں اور بچوں کو انعام دے کر انہیں سیرت نبوی سے واقف کرائیں۔
اظہار محبت کا دوسرا مناسب طریقہ یہ ہے کہ ہم برادران وطن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانیت نواز تعلیمات کو پہنچائیں، اس وقت مغرب کی جانب سے ایک منظم کوشش کی جارہی ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے لئے مختلف حربے استعمال کئے جارہے ہیں، جب اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں تو ہم لوگ احتجاج کرتے ہیں اور ہم اس احتجاج میں حق بجانب بھی ہیں؛ لیکن یہ اس مسئلہ کا پائیدار اور مستقل حل نہیں ہے، اس کا اصل حل یہ ہے کہ غیر مسلم بھائیوں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پہنچائی جائے، خاص کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند اخلاقی کے واقعات اور انسانیت نواز تعلیمات کو عام کیا جائے، مقامی زبانوں میں سیرت کا لٹریچر زیادہ سے زیادہ مقدار میں شائع کیا جائے اور ایک ایک غیر مسلم بھائی تک اس کو پہنچانے کی کوشش کی جائے، اگر ہر صاحب استطاعت مسلمان یہ طے کرلے کہ وہ انگریزی، ہندی یا ہندوستان کی کسی مقامی زبان میں موجود سیرت کی کتاب کے ایک سو تا ایک ہزار نسخے اپنے برادران وطن تک پہنچائے گا، ہاسپٹل جاکر مریضوں میں، ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹینڈوں پر جاکر مسافروں میں، اسکولوں اور کالجوں میں جاکر اساتذہ اور طالبات میں تقسیم کرے گا، تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا حقیقی اظہار ہوگا، اس طرح غلط فہمیوں کے بادل چھٹیںگے، لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی کو پہچانیںگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عظمت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوگی۔
اظہار محبت کا تیسرا طریقہ — جس کی خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی ہے — درود شریف کی کثرت ہے، گھروں میں ایسا ماحول بنائیے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں، ہر مسلمان خاندان طے کرے کہ کم سے کم اس ماہ میں ہم سب مل کر ایک لاکھ دفعہ درود شریف پڑھیں گے اور آئندہ بھی سہولت کے لحاظ سے اس کا سلسلہ جاری رکھیں گے ، تو آپ کی احسان شناسی کا مناسب اظہار ہوگا؛ کیوںکہ امت کا درود شریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیاجاتا ہے اور درود کی یہ کثرت انشاء اللہ آخرت میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت میں حصہ دار بنائے گی۔
اگر ہم سیرت کا پیغام مسلمانوں تک پہنچاکر، غیر مسلموں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے واقف کراکر اور درود شریف کی کثرت کے ذریعہ آپ سے محبت و تعلق کا اظہار کریں تو یہ اظہار محبت کی کتنی بہتر، مفید اور ثمر آور صورت ہوگی، کاش! ہم ٹھنڈے دل سے اور دینی تعلیمات کو سامنے رکھ کر اس مسئلہ پر غور کریں۔