لکھنؤ :
امت کمار گزشتہ رات دس بجے آکسیجن کی لائن میں لگے تھے ، کسی طرح جمعہ کی صبح نو بجے وہ اپنا سلنڈر بھروا سکے ، اب اس کے پاس اپنے مریض کے لئے چوبیس گھنٹے کی آکسیجن ہے ، اس کے بعد کیا ہوگا؟ معلوم نہیں۔
لیکن لکھنؤ میں ہر ایک شخص ان کی طرح خوش قسمت نہیں ہے ، مثال کے طور پر سیما سریواستو اور اس کے شوہر راکیش سریواستو کی سانسیں جمعرات کی شام سے ہی اکھڑ رہی تھیں ، ان کی مدد کے لئے سوشل میڈیا پر پیغامات وائرل کردیئے گئے ، لوگوں نے اعلیٰ افسران کو فون کیا۔ 112 سروس نے ان کی مدد کرنے کی بھی یقین دلائی ، لیکن کوئی مدد نہیں پہنچ سکی۔
سیما سریواستو کا جمعرات کی رات دیر رات انتقال ہوگیا ، اس کے شوہر گھر میں ہی بستر پر ہیں۔ نہ اس کے لیے آکسیجن کا انتظام ہوسکا اور نہ ہی اسپتال میں بستر کی ، اس کے بیٹے نے روتے ہوئے بتایا ماں چلی گئی ، کسی طرح پاپا کو بچالیجئے۔ کوئی ہماری مدد نہیں کررہا ہے۔
حکومت کیا کر رہی ہے؟
مسئلہ بہت بڑا اور سنگین ہے ، اس افرا تفری ماحول میں حکومت کچھ کوششیں کر رہی ہے لیکن مستقبل قریب میں اس کا مکمل حل ممکن نظر نہیں آتا ہے۔دارالحکومت لکھنؤ میں آکسیجن کی فراہمی کے لئے جھارکھنڈ کے بوکارو کیلئے خصوصی ٹرین روانہ کردی گئی ہے۔ یہ ٹرین ہفتے کی شام تک لکھنؤ پہنچے گی، تب تک لکھنؤ میں بہت سے لوگوں کی جانیں داؤپر ہے۔
لکھنؤ میں آکسیجن کی دستیابی کے بارے میں نمائندے نے سی ایم او ، ڈی ایم سمیت متعدد اعلیٰ عہدیداروں سے بات کی لیکن ٹھوس معلومات کہیں سے نہیں مل سکی۔
اترپردیش حکومت میں وزیر سدھارتھ ناتھ سنگھ کے مطابق ریاست میں 90 درمیانے اور چھوٹے پیمانے کی صنعتوں میں آکسیجن پیدا کرنے کی گنجائش ہے ،انہیں 280 اسپتالوں سے جوڑ دیا گیاہے۔ ان اسپتالوں کو یہاں سے آکسیجن فراہم کی جارہی ہے۔ انہوں نے ریاست میں جاری آکسیجن بحران پر مزید کوئی بات نہیں کی۔
اترپردیش حکومت نے ریاست میں آکسیجن سپلائی کی ذمہ داری کابینہ کے وزیر سریش کھنہ کو سونپی ہے۔ اس سے متعدد بار بات کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن کوئی جواب نہیں مل سکا۔
مریضوں کی زندگی رام بھروسے
شردھا سریواستو نے کسی طرح اپنے والد ڈاکٹر یوگیش سریواستو کے لئے آکسیجن کا بندوبست تو کرلی ، لیکن اسپتال میں وینٹی لیٹر سپوٹر والابستر نہ مل سکا اور جمعرات کو ان کا انتقال ہوگیا۔ شردھا کے بھائی نے بتایا ،ہمیں ایک آکسیجن سلنڈر 35 ہزار میں خریدنا پڑا ، دوسرا توکسی بھی قیمت پر دستیاب نہیں تھا۔
ڈاکٹر یوگیش کی کورونا رپورٹ منفی تھی ، اس کے باوجود وہ کہیں بھی بستر نہیں پاسکے ، کیونکہ لکھنؤ کے بیشتر اسپتالوں میں آکسیجن ہے۔
انو اپنے 33 سالہ بھائی کی گھر پر ہی دیکھ بھال کر رہی ہے ،انہوں نے بڑی مشکلات سے اب تک اپنے بھائی کے لیے چار آکسیجن سلنڈر کاانتظام کیا ہے۔ ایک چھوٹا سلنڈر انہوں نے 35 ہزار روپے دے کر بلیک مارکیٹ سے خریدا ہے۔ انو کہتی ہیں، ‘بھائی کی آکسیجن کا لیول گر رہا ہے۔ ابھی تک کے لئے تو آکسیجن موجود ہے ، آگے پتہ نہیں ، ایک خالی سلنڈر رکھا ہے اسے بھروا نہیں پا رہے ہیں۔
ڈاکٹر ابو سفیان ’ یونیورسٹی ہاسپیٹل‘ کے نام سے ایک چھوٹا سا اسپتال چلاتے ہیں جس میں دو وینٹی لیٹر اور پانچ آکسیجن سپوٹر بیڈ ہیں۔ جمعرات کے روز اس کے اسپتال میں آکسیجن ختم ہوگئی تو اسے مریضوں کو ڈسچارج کرنا پڑا۔
سفیان نے بی بی سی کو بتایا ،لکھنؤ میں کہیں بھی آکسیجن دستیاب نہیں ہے۔ سلنڈروں کو آس پاس کے اضلاع میں کار کے ذریعے بھیجا گیا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ آکسیجن کا انتظام کہاں سے ہوپاتا ہے۔
لکھنؤ کے بڑے اسپتالوں میں بھی صورتحال زیادہ اچھی نہیں ہے۔ سہارا اسپتال میں انتظامیہ کے انچارج صرف اتنا کہا کہ ہم کسی طرح سے آکسیجن کا بندوبست کرنے میں مصروف ہیں ، اگر آکسیجن مل گیا تو مریضوں کو داخل کرایا جائے گا۔
میڈنتا اسپتال میں کووڈ مریضوں کی ذمہ داری سنبھالنے والی ڈاکٹر سشیلا کٹاریہ کا کہنا ہے کہ کووڈ کے 80 فیصد کووڈ مریضوں کو اسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، لیکن بیس فیصد جو اسپتال میں داخل ہیں ، 15 فیصد کو کسی نے کسی طرح سے آکسیجن سپورٹ کی ضرورت پڑتی ہے ، ان کے لیے پہلی دوا آکسیجن ہی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر کٹیریا کہتی ہیں ، بلڈ تھینر ، ریمڈڈسیوریا کوئی دوا دینے سے پہلے آکسیجن ہی دیتے ہیں۔ عام طور پر آکسیجن 97-98 فیصد ہوتی ہے۔ جسم میں آکسیجن بھی کچھ وقت کے لئے 90-88 بھی ہو تو شخص کچھ وقت کے لئے بچ سکتا ہے۔ لہٰذا آپ اسے برداشت کرسکتے ہیں ، لیکن اگر آکسیجن کا لیول اس سے نیچے آجائے تو اس کے بچنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس صورتحال میں آکسیجن پہلی دوا ہے۔