ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
ہرفرد اپنی مخصوص مذہبی شناخت کے ساتھ سماج میں محفوظ زندگی گزارنے کا دستوری حق رکھتا ہے، انفرادی تشخص کی وجہ سے کسی بھی انسان کی زندگی یا آزادی کو اگر خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے تو یہ اس کے بنیادی دستوری حق کی خلاف ورزی تسلیم کی جائے گی، قانون کی بالادستی کا صاف مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکے، قانون اگر کوئی اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو اس شخص یا گروہ کے خلاف قانونی کاروائی یقینی ہو، نیز قانون کی نظر میں ہر شخص یکساں اور برابر ہو، کسی بھی بنیاد پر کسی بھی شہری کے ساتھ کوئی تفریق نہیں کی جائے۔
حالیہ برسوں میں ماب لنچنگ یا ہجومی تشدد کے حادثات روزمرہ کا معمول سے بن گئے ہیں، ان حادثات کی روک تھام کے لئے ہمارے قانونی نظام کو جس سنجیدگی سے پیش آنا چاہیے تھا وہ سنجیدگی نہ تو حکومت کی جانب سے دکھائی دی اور نا ہی پولیس یا عدلیہ کی جانب سے کوئی سخت پیش رفت ہوئی، ہمارا ملک ایک عوامی جمہوریت ہے اور اس جمہوری ملک کے ایک خاص طبقے کے اندر خوف و ہراس کا ماحول ہے، ان حادثات کی وجوہات و اسباب میں فرضی خبریں، افواہیں، نفرت آمیز تقریریں خاص ہیں جن کی وجہ سے پورے ملک میں اقلیتی طبقے کے خلاف عام عوام کے ذہن و دماغ میں اس قدر نفرت پیدا کردی گئی ہے کہ سبزی اور پھل بیچنے والوں سے بھی ان کا نام اور مذہب پوچھا جانا ایک عام سی بات ہوگئی ہے، لیکن نفرت پھیلانے والوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔
ماب لنچنگ درحقیقت بھیڑ یا ہجوم کے ذریعے کسی کو بھی کسی جرم کے الزام میں قانون کو بالائے طاق رکھ کر موت کے گھاٹ اتاردینے کا نام ہے، جب کہ دستور و قانون کے مطابق اس الزام میں کسی کو بھی گرفتار کرنا یا اس الزام کی تفتیش کرنا پولیس محکمہ کی ذمہ داری ہوتی ہے، عدلیہ کا کام ہے کہ وہ پولیس کی تفتیش و گواہوں اور ثبوت کی روشنی میں کسی ملزم کو مجرم یا بے گناہ قرار دے۔ لیکن ماب لنچنگ کے واقعات میں انصاف ہجوم کرتا ہے، یہ انصاف کسی قانون کے ذریعے نہیں بلکہ قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے صرف شک یا افواہ کی بنیاد پر کردیا جاتا ہے، اگر ہم ہندوستان میں ماب لنچنگ کے واقعات پر نظر ڈالیں تو اکثر و بیشتر حادثات 2014 کے بعد بی جے پی کی حکومت والے صوبوں میں ہوئے ہیں جن میں مسلمان ہی ماب لنچنگ کے شکار ہوئے، کچھ جگہوں پرمسلمانوں کے علاوہ دیگر قوموں و مذاہب کے افراد بھی ماب لنچنگ کا شکار ہوئے تاہم مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کے پیچھے کہیں نا کہیں وہ سیاسی مقاصد و محرکات بھی موجود ہیں جن کے مطابق اکثریتی طبقے کو بار بار یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلم طبقہ ملک کا وفادار نہیں ہے یا مسلمانوں کی وفاداری پڑوسی ملک سے زیادہ ہے، یا مسلمان گئو کشی کرتا ہے، گزشتہ برسوں میں ہونے والے واقعات میں نا تو مجرمین کو عدالت سے سزا مل سکی اور نا ہی ان واقعات میں کوئی خاص کمی واقع ہوئی ہے، پولیس کی تفتیش نیز مقدمات کی سنوائی کے دوران سرکاری وکیلوں کا رول بھی سوالوں کے گھیرے میں رہا ہے، سماجی یا مذہبی تنظیموں کا عدالتی یا قانونی پیش رفت میں کوئی رول کسی بھی مقدمے میں نہیں رہا۔
سپریم کورٹ آف انڈیا کی تین ججوں کی بنچ نے2018 میں تحسین پونہ والا کی پٹیشن کا تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے ماب لنچنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر سخت الفاظ میں تشویش ظاہر کی تھی نیز چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا نے ماب لنچنگ کو موبوکریسی کہا تھا، تحسین پونہ والا بنام یونین آف انڈیا کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے حکومت کے لئے رہنما اصول یا گائیڈ لائن مقرر کی تھیں جن کے مطابق موب لنچنگ کے حادثات کی روک تھام کے لئے ہر ضلع میں نوڈل آفیسر تعینات کیا جانا تھا جس کی رینک ایس پی (سپرنٹنڈینٹ آف پولیس) سے کم نا ہو، ہر ضلع میں اسپیشل ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا جائے جس کی ذمہ داری پورے علاقے پر باریک نظر رکھنااور ان تمام افراد کی معلومات حاصل کرتے رہنا جو اس قسم کے حادثات انجام دے سکتے ہوں یا جو نفرت آمیز تقریریں کرتے ہوں۔ صوبائی حکومتیں ان تمام ضلع و قصبات کی شناخت کرے جہاں گزشتہ پانچ برسوں میں ماب لنچنگ کا کوئی حادثہ ہوا ہو، نیز صوبائی حکومت ان مخصوص جگہوں کے نوڈل آفیسرو آفیسر انچارج کو مزید محتاط رہنے کے احکامات دیں تاکہ وہ وہاں کے ویجیلنس کرنے والے، ہجومی تشدد اور لنچنگ کے طور طریقوں کی شناخت کریں۔ نوڈل آفیسر ہر مہینے ایل آئی او کے ساتھ اس سلسلے میں میٹنگ کریں، ڈی جی پی ان کے ساتھ ہر تین مہینے میں ریویو میٹنگ کریں، ہر پولیس آفیسر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے تمام ہی ہجوم کو ختم کریں جو کہ تشدد کرسکتا ہو۔
سپریم کورٹ نے حکومت ہند کی شعبہ برائے داخلہ امور کو یہ تاکید کی کہ وہ قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کو بیدار و مستعد کرنے کے کوششیں کریں تاکہ وہ انصاف کے نظام کی بالادستی قائم کریں، حساس علاقوں میں پولیس گشت بڑھائی جائے، صوبائی و مرکزی حکومتوں کو ذمہ داری دی کہ وہ ایسے تمام ہی میسیج و ویڈیوز پر روک تھام لگائیں جن سے ہجومی تشدد یا لنچنگ کا اندیشہ ہو مزید یہ کہ ایسے میسیج یا ویڈیو بنانےو بھیجنے والوں کے خلاف اینڈین پینل کوڈ کی دفعہ 153 اے کے تحت ایف آئی آر درج کی جائے، مرکزی حکومت ان واقعات کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے صوبوں کو ایڈوائزری نیز احکامات جاری کریں۔
اگر ماب لنچنگ کا کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو اس صورت میں سپریم کورٹ نے تحسین پونہ والا کے فیصلے میں مزید رہنما اصول فراہم کئے ہیں جن کے مطابق مقامی پولیس حادثہ کی فورا ایف آئی آر درج کرکے نوڈل آفیسر کو مطلع کرے گی، متاثرین و انکے اہل خانہ کو فوری تحفظ فراہم کرے گی تاکہ کسی طرح کا استحصال نا ہو، نوڈل آفیسر بذات خود تفتیش کی نگرانی اور ملزمین کی گرفتاری کو یقینی بنائے گا، صوبائی حکومت سی آرپی سی کی دفعہ ۳۵۷ اے کی روشنی میں لنچنگ کے متاثرین کے لئے معاوضے کی اسکیم تیار کرے گی، مقدمات کی سنوائی تیزرفتار عدالتوں میں روزانہ سنوائی کی بنیاد پر ہوگی، مقدمات کی سنوائی چھ ماہ کے اندر اندر مکمل کی جائے، اس کے علاوہ دیگر اصولوں میں گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کا بھی ذکر ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کے ان رہنما اصولوں کی خلاف ورزی کی صورت میں پولیس آفیسر و ضلع انتظامیہ کے خلاف جان بوجھ کر کوتاہی کرنے کے الزام میں چھ ماہ کے اندر ڈپارٹمنٹل انکوائری کرنی ہوگی نیز ان کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے۔
سپریم کورٹ نے تحسین پونہ والا بنام یونین آف انڈیا کا تاریخی فیصلہ 17 جولائی 2018 کو سنایا تھا، آج اس فیصلے کو تقریبا تین سال ہوچکے ہیں، لیکن مرکزی حکومت یا کسی بھی صوبائی حکومت نے ان رہنما اصولوں کے بنیاد پر کوئی سنجیدہ پیش رفت اب تک نہیں کی یہی وجہ ہے کہ ہم آئے دن ماب لنچنگ کے واقعات سنتے رہتے ہیں، اگر ماب لنچنگ کے واقعات کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اپنے شہریوں خصوصا اقلیتی طبقات و پسماندہ افراد کی زندگی و آزادی کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوجائے گی، سماج میں امن و امان کا قیام قانون کی بالادستی قائم کرنے سے ہوتا ہے، جب تک مجرمین کو سیاسی پشت پناہی حاصل رہے گی، پولیس محکمہ اور عدلیہ اپنے فرائض کو ایمانداری سے ادا نہیں کریں گے اس وقت تک سماج میں موب لنچنگ جیسے غیر انسانی حادثات کی روک تھام ممکن نہیں ہوگی، انصاف کا قیام نیز قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پولیس کی تفتیش و کاروائی ایماندارانہ ہو، ماب لنچنگ کی روک تھام کا واحد راستہ مجرمین کو سخت سزا ملے نیز سزا دینے کا اختیار صرف عدلیہ کو ہے۔