نئی دہلی: سپریم کورٹ نے یوپی مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو آئینی قرار دیتے ہوئے الہٰ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم کر دیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں یوپی کے 16 ہزار مدارس میں پڑھنے والے 17 لاکھ طلباء کو راحت ملی ہے۔
سابقہ فیصلے میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے مدرسہ ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قانون سیکولرازم کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس پر سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی، جس میں کہا گیا کہ یہ قانون آئینی ہے اور مدارس کو تعلیمی معیار کے تحت لانا ضروری ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ نے اس معاملے کی سماعت کے دوران کہا کہ الہٰ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ یوپی حکومت کو مدارس میں تعلیمی معیار کے ضوابط نافذ کرنے کا حق حاصل ہے۔ خیال رہے کہ یوپی میں مدارس کی مجموعی تعداد تقریباً 23500 ہے، جن میں سے 16513 مدارس کو سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ ان میں 560 ایسے ہیں جو سرکاری مالی امداد حاصل کرتے ہیں۔سماعت کے دوران، ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نٹراجن نے عدالت کو بتایا کہ ریاست کا مؤقف یہ ہے کہ مدرسہ ایکٹ کے ذریعے ریاست کو تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔ انہوں نے عدالت سے یہ بھی کہا کہ اس ایکٹ کی دفعات کا جائزہ لینا چاہئے لیکن اسے مکمل طور پر منسوخ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔چیف جسٹس نے اس معاملے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مدرسہ تعلیم کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ریاست کو مذہبی اداروں میں تعلیم کی کیفیت کو بہتر بنانے کا حق نہیں ہونا چاہئے۔عدالت نے اس ایکٹ کے تحت دی جانے والی ڈگریوں کا بھی ذکر کیا اور واضح کیا کہ ‘فاضل’ اور ‘کامل’ ڈگری دینا ریاست کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ یہ فیصلہ یوپی میں مدارس کی مستقبل کی نوعیت اور طلباء کے تعلیمی معیار پر براہ راست اثر انداز ہو سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے مدرسہ ایکٹ کو برقرار رکھنے کے بعد ریاست میں مذہبی تعلیم کے اداروں میں حکومت کا کردار مزید مضبوط ہو جائے گا۔