مہاکمبھ بھگدڑمیں 35 سے 40 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ 60 افراد زخمی ہوئے۔ بھگدڑ کے بعد کا منظر خوفناک تھا۔ کچھ لوگ روتے ہوئے اپنے پیاروں کو ڈھونڈتے رہے تو کچھ اپنے پیاروں کی میت کو تھامے رہے کہ کہیں لاش گم نہ ہو جائے۔ سینٹرل ہسپتال میں ہر طرف خون میں لت پت لوگ اور لاشیں پڑی تھیں۔
یہ وہ وقت تھا جب عقیدت مندوں کے لیے کیے گئے انتظامات درہم برہم ہو گئے۔ شردھدالووں کا داخلہ روک دیا گیا۔ وہ جس تک پہنچ گیا تھا، اسے وہیں روک دیا گیا۔ ایسے میں 29 جنوری کو جانسن گنج روڈ سمیت 10 سے زیادہ علاقوں کے مسلمانوں نے بڑی دریادلی دکھائی۔ 25 سے 26 ہزار عقیدت شردھالووں کے لیے مساجد، مقبروں، درگاہوں، امام بارگاہوں اور اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے۔
لوگوں کے رہنے کا انتظام کیا۔ جن کو دوا کی ضرورت تھی ان تک کھانا، چائے اور پانی پہنچایا، ان کا خیال رکھا۔
دینک بھاسکر نے ہم آہنگی کی اس مثال پر مسلم کمیونٹی کے لوگوں سے بات کی۔
معلوم ہوا کہ 10 سے زیادہ علاقوں میں بھنڈارا کا اہتمام کیا گیا تھا، 28 جنوری کی رات مہاکمبھ کے 10 کلومیٹر کے علاقے میں 8 کروڑ لوگ موجود تھے۔ حادثے کے بعد شاہراہیں جام ہوگئیں۔ بسوں کی رفتار رک گئی۔ لوگوں کی بڑی تعداد کو رات سڑکوں پر گزارنی پڑی۔
شردھالووں کو 29 جنوری کی رات بھی سڑک پر ہی گزارنی پڑی۔ ایسے میں پریاگ راج کے مسلمانوں نے گنگا جمنی ثقافت کی مثال دی۔ میلے والے علاقے سے 10 کلومیٹر دور خلد آباد سبزی منڈی مسجد، بڑا تعزیہ امام باڑہ، ہمت گنج درگاہ اور چوک مسجد میں لوگوں کو ٹھہرایا گیا۔ اس کی کچھ تصاویر اور ویڈیوز بھی منظر عام پر آئی ہیں۔
مسلم کمیونٹی کے علاقوں نخاس کوہنا، روشن باغ، ہمت گنج، خلد آباد، رانی منڈی، شاہ گنج کے لوگوں نے اپنے گھروں میں شردھالووں کی میزبانی کی۔ انہیں چائے اور ناشتہ پیش کیا۔ کھانا کھلایا۔ رات کو ان علاقوں میں بھنڈارا کا اہتمام کیا گیا۔ ان میں حلوہ پوری اور کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کی گئیں۔معین الدین نے کہا- پریاگ راج کے مسلمان صرف یہ چاہتے تھے کہ جو بھی یہاں آئے وہ کھلے آسمان تلے رات نہ گزارے، اس لیے سب نے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے۔ یہ ہم آہنگی کی ایک مثال کی طرح ہے۔ہری مسجد کے سامنے سول لائن موحد۔ اعظم نے کہا- اس رات لوگ سردی سے پریشان تھے۔ زیادہ سے زیادہ کمبل اور لحاف دستیاب کرائے گئے۔ ہم صرف یہ چاہتے تھے کہ اسے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ رات کو ان کے کھانے کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔