تحریر: مکل کیسوان
گزشتہ ہفتے ہری دوار میں ’دھرم سنسد‘ منعقد ہوئی جس میں ہندوتوا کا خطرناک چہرہ نظر آیا۔ ہندو رکشا سینا کے صدر پربودھانند گری نے اپنا ایکشن پلان پیش کیا۔ مرنے- مارنے کایہ پلان میانمار کی مثال رکھتےہوئے پیش کیا گیا جس کا نچوڑ تھا کہ اپنے ملک میں ’صفائی ابھیان‘ چلانا۔ یہ وزیر اعظم نریندرمودی کے صفائی ابھیان سے بالکل الگ ابھیان ہے۔ اکثریت پسندی کو کسی وجہ ضرورت نہیں ہوتی۔ اقلیت کو ان کی ضرورت ہے۔سری لنکا کے بدھ مت اکثریت پسند لوگوں نے اپنے مسائل کا ’حل‘ تمل ’ مسائل‘ سے پرتشدد طریقے سے نمٹ کر کیا ۔ خانہ جنگی میں جیت کے بعد تاملوں کے لیے دوسری شہریت طے کی گئی۔ سری لنکا میں مسلمانوں کے ساتھ یہی سلوک کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں وہاں گائے کے گوشت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ہندوتوا میانمار میں روہنگیا کی نسل کشی کو ایک مثال کے طور پر دیکھتا ہے۔ وہ بھی اسی پر عمل درآمد کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔
آزادی کے 75 سال بعد ہری دوار میں پھیلائی گئی نفرت صرف علامتی ہے۔ پربودھانند صرف ایک مثال ہے۔ پچھلے 7 سالوں میںہندوستان نوٹ بندی اور لنچنگ کے درمیان کھڑا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اپوزیشن اور ہندوستان کے شہری اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
( بشکریہ: ٹیلی گراف)