کنڑ ادب کی دنیا میں مشہور دیوانورا مہادیو کے ایک کتابچے پر بحث کی ہے، جس کا ان دنوں مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو رہا ہے اور جس کا خوب چرچا ہے۔ اس میں ایم ایس گولوالکر اور وی ڈی ساورکر کے اقتباسات شامل ہیں، جو دو نظریات کے حامل ہیں جنہوں نے ہندوتو کو تشکیل دیا، جو ذات پات کے نظام اور اس میں درجہ بندی کی حمایت کرتے ہیں۔ ساورکر منوسمرتی کی پوجا کی وکالت کرتے ہیں۔ مہادیو کی طرف سے ساورکر کے دیے گئے حوالوں میں کہا گیا ہے کہ ہماری ہندو قوم میں ویدوں کے بعد منوسمرتی سب سے زیادہ قابل احترام ہے۔ یہ ثقافت، روایت، فکر اوررواج کی بنیاد ہے… آج منوسمرتی ہی ہندو قانون ہے۔ یہ بنیادی بات ہے۔
مہادیو آر ایس ایس کے مفکر گولوالکر کے خیالات کا بھی حوالہ دیتے ہیں جن کے نزدیک وفاقی نظام ‘زہر’ ہے۔ وہ ایک ملک، ایک ریاست، ایک مقننہ، ایک ایگزیکٹو کی وکالت کرتے ہیں۔ دیوانورا مہادیو نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر ہم گولوالکر کی کتاب ’’ The bunch of thoughts‘‘ کی تہہ تک جائیں تو اس میں نظریہ یا غور و فکر نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ خطرناک عقائد کا پٹارہ ہے۔
مہادیو لکھتے ہیں کہ ہندوستانی آئین کے محافظ کے طور پر تکثیریت، ذات اور جنس کی مساوات، اظہار رائے کی آزادی اور وفاقیت کو خطرہ واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ہندوستان کی سیاسی جماعتیں ایک قیادت، خاندانی کنٹرول اور غیر آئینی تنظیمی طریقوں سے چل رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کالے دھن کو ختم کرنے، کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے، کروڑوں نوکریاں پیدا کرنے جیسے وعدوں کی ناکامی کے باوجود کوئی بے چینی نہیں ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے اور صرف چند صنعتکاروں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔
رام چندرگوہا ( ٹیلیگراف)
انگریزی سے اردو میں اختصار ،یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں )