نام کتاب : مرج البحرین، سوانح شیخ الاسلام مولانا عبداللہ انصاریؒ
مولف: نورالحسن راشد کاندھلوی
تبصرہ: محمد غزالی خان
صفحات: 256
قیمت: 300 روپئے
ناشر: Iqra Educational Foundation, A-2 Firdaus, 2 Veer Savarkar Road, Mahim (W) Mumbai 400016, India
Email: contact@iqraindia@org
ویب سا ئٹ: www.iqraindia.org
جہاں ایک طرف سرسیدؒ اورعلیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ آج تک کسی طرح رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور برصغیرہند و پاک میں کچھ مسلمان احسان فراموشی کی بدترین لعنت میں مبتلا ہیں (یہ احسان فراموشی صرف سریسدؒ کے تئیں ہی مخصوص نہیں، اس قوم نے اوربہت سی شخصیات کو نہیں بخشا ہے۔ بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے) تودوسری جانب کچھ ایسے اہل فکر بھی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے کہ اپنی علمی صلاحیت و وسائل کو مثبت کاموں اور نئی نسلوں کی رہنمائی کے لئے استعمال کریں۔ ایسا ہی ایک نیک کام اللہ تعالیٰ نے نورالحسن راشد کاندھلوی صاحب سے لیا ہے جنہوں نے ’مرج البحرین، سوانح شخ الاسلام مولانا عبداللہ انصاریؒ‘ مرتب کر کے تاریخ میں گم ہوجانے والی ایک بڑی شخصیت کے غیر معمولی کارنامے کو نئی نسل کے سامنے پیش کیا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ سرسیدؒ کے خلاف جو طوفان ان کی زندگی میں برپا کیا گیا تھا اورجو کبھی کا ختم ہوچکا ہے کچھ حلقے اس طوفان کو زندہ کرنے کی مستقل کوشش کرتے رہتے ہیں۔ سرسید اور علیگڑھ کے خلاف ان لوگوں کا بغض کسی طرح ٹھنڈہ ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اگرآپ کو لفظ ’بغض‘ پر اعتراض ہو اور اس میں میری شدت نظرآرہی ہوتو آپ آئے دن سر سید اور اس کے خلاف ہند پاک کے رسائل و جرائد یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر تحریریں اور بیانات دیکھ سکتے ہیں جو گوگل اور یوٹیوب پر ایک سرچ میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔
کاش ایسے لوگ بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتویؒ کے اس جواب پرکچھ غورکرلیتے جو انہوں نے ایک سوال کے جواب میں دیا تھا: ’پیر جی صاحب یہ گمنام کبھی کسی سے نہیں الجھتا اور الجھے بھی تو کیونکر الجھے، وہ کون سی خوبی ہے جس پر کمر باندھ کر لڑنے کو تیار ہو۔ ایسی کیا ضرورت ہے کہ اپنے عمدہ مشاغل کو چھوڑکر اس نفسا نفسی میں پھسوں۔ ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ سنی سنائی سید صاحب کی اولولعزمی اور درمندی اہل اسلام کا معتقد ہوں اور اس وجہ سے ان کی نسبت اظہار محبت کروں تہ بجا ہے۔ مگر اتنا یا اس سے زیادہ ان کی فسادِ عقائد سن سن کر ان کا شاکی اور ان کی طرف سے رنجیدہ خاطر ہوں۔۔۔‘ (تصفية العقائد، صفحہ نمبر 6)
یہ مختصر سا اقتباس مولانا قاسم نانوتویؒ کے ایک خط سے ماخوذ ہے جس میں انہوں نے سرسیدؒ کے مذہبی عقائد پر اظہارافسوس اوران سے شدید اختلاف کے باوجود ان کے تئیں اپنے نیک جذبات مخفی نہیں رکھے ہیں۔
39 صفحات پر مشتمل اس کتابچے میں اپنے دور کے دو بڑے محسنین ملت، مولانا قاسمؒ اور سرسیدؒ، پیر جی محمد عارف کی معرفت ایک دوسرے سے مخاطب ہیں۔ تین صفحات پر سرسید کی اپنے موقف کی وضاحت ہے اور 36 صفحات میں مولانا قاسم نانوتوی کا جواب ہے۔
مندرجہ بالا اقتباس میں ان جملوں پر ایک مرتبہ پھرغورکیجیے جن سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ مولانا قاسمؒ کے نزدیک وہ طوفان بالکل غیرضروری تھا جو سرسیدؒ کے خلاف برپا کیا گیا تھا اورانہیں کافر قرار دے کر واجب القتل قراردیا جا رہا تھا۔ ان جملوں پر ایک مرتبہ پھر توجہ فرمائیں : ’۔۔۔ وہ کون سی خوبی ہے جس پر کمر باندھ کر لڑنے کو تیار ہو ایسی کیا ضرورت ہے کہ اپنے عمدہ مشاغل کو چھوڑ کر اس نفسا نفسی میں پھسوں۔ ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ سنی سنائی سید صاحب کی اولولعزمی اور درمندی اہل اسلام کا معتقد ہوں اور اس وجہ سے ان کی نسبت اظہار محبت کروں تو بجا ہے۔۔۔‘
حالانکہ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ کتاب علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے بانی اورپہلے ناظم مولانا عبداللہ انصاریؒ کی سوانح ہے، مگرفی الحقیقت یہ دیوبند اورعلیگڑھ کے نزدیکی تعلق اورباہمی تعاون پرایک عمدہ تاریخی دستاویزبھی ہے۔
اس کتاب میں نوارالحسن کاندھلوی صاحب کی قیمتی اوراہم تحقیق کے علاوہ مولانا عبداللہ انصاریؒ صاحب کے دو پڑپوتوں مرحوم ڈاکٹر عابد اللہ غازی صاحب (سابق چیرمین اقراء انٹرنیشنل ایکوکیشنل فاؤنڈیشن، شکاگو، امریکہ)؛ محمد طارق غازی صاحب (سینئر صحافی، مصنف اورامم اسٹڈیز ہاؤس، ٹورانٹو، کنیڈا)؛ کے ساتھ ساتھ مولانا سعود عالم قاسمی، (سابق ڈین اور ناظم دینیات، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی) اور ڈاکٹرراحت ابرار صاحب (سابق افسر اعلیٰ رابطہ عامہ، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی) کے نہایت دلچسپ، تحقیقی مضامین شامل ہیں۔
مولانا عبداللہ انصاری صاحب اللہ تعالیٰ کے ان نیک بندوں میں تھے جو ملت کی خدمت کرکے تاریخ کے صفحات میں کہیں گم ہوگئے۔ علیگڑھ کے فارغین ہوں یا دارالعلوم دیوبند اور ندوہ کے فاضلین، کتنوں نے مولانا عبداللہ انصاری کا نام سنا ہوگا اوراگر سنا ہوگا تو کتنوں کواس مرد قلندر کی اس خدمت اورہمت کے بارے میں معلوم ہوگا جس نے دینی مدارس اور علیگڑھ کے درمیان خلیج کو پاٹ کر آئندہ نسلوں کے لئے دین اور دنیا کی راہیں ہموارکردیں جو مسلسل گہری سے گہری اوروسیع سے وسیع ہوتی چلی جارہی تھی۔
سرسیدؒ کے خلاف تکفیری مہم میں شامل ہونے سے انکارکے باوجود علمائے دیوبند ان کے ساتھ تعاون کرنے کو کسی بھی طرح تیار نہ تھے اور ان حالات میں مولانا عبداللہ انصاریؒ کا علیگڑھ آنا اور سرسید کے ساتھ تعاون کرنا نہایت جرات مندانہ تاریخی فیصلہ تھا۔
سرسید کے کاروان میں شامل ہونے کی وجہ سے اپنے بزرگوں کی برہمی کے باعث مولانا عبداللہ انصاری کو کس ذہنی اورروحانی کرب سے گزرنا پڑا ہوگا اس کا آج کے ماحول میں شاید ہم ٹھیک طرح اندازہ بھی نہ کرسکیں۔ اس کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے عابداللہ غازی صاحب مولانا رشید احمد گنگوہی کے نام حاجی امداداللہ مکی کا ایک خط نقل کرتے ہیں جس میں انہوں نے لکھا ہے: ’مولوی عبداللہ صاحب کے حالات سن کر تعجب ہوا اور افسوس کہ باوجود دعویٰ صوفیت اور بزرگ زادگی کے اس مدرسہ کے متعلق ہوگئے جس کا نام علمائے آخرت کے نزدیک دارالالحاد ہے اور جو مذہب اور مشرب کے خلاف ہے اور یہ جو آپ سے کسی نے کہا ہے کہ وہ فقیر کی اجازت سے مدرسہ نیچریہ میں ملازم ہوئے ہیں سبحانک ھذابحتان عظیم [سبحان اللہ، یہ تو ایک بڑا بہتان ہے] ۔۔۔ علمائے آخرت اس مدرسہ کے متعلقین کو دیندار نہیں سمجھتے بلکہ نصوص الدین جانتے ہیں خواہ وہ علماء ہوں یا بزرگ زادے، کیونکہ آخرت میں نہ تو مجرد علم کام آوے گا نہ بزرگ زادگی۔۔۔‘
ڈاکٹرعابداللہ غازی رقم طراز ہیں: ’مولانا انصاری نے اپنے پیرو مرشد کی بات کو نظرانداز کرکے اورعلی گڑھ میں دعوت و تبلیغ اور حکمت و موعظت کے روشن امکانات کو دیکھ کر بیعت و سلوک کے آداب کے خلاف فیصلہ کیا تھا لیکن نہ مولانا انصاری نے بیعت ختم کی اور نہ حاجی امداد اللہ نے انہیں اپنے حلقہ خلافت سے خارج کیا۔ البتہ حاجی صاحبؒ اور بزرگان دیوبند سے ان کے تعلقات یقیناً متاثر ہوئے ہوں گے۔‘
مگر مولانا انصاری کے سامنے وہ کون سا بڑا مقصد تھا جس کے لئے انہوں نے اپنے بزرگوں کی نارضگی مول لی؟ عابداللہ صاحب لکھتے ہیں: (1) ’سرسید کے مشن میں مولانا عبداللہ انصاری کی شرکت سے اس مشن کوغیرمعمولی تعاون حاصل ہوا۔ وہ لوگ جواب تک متاءمل تھے شریک کار ہوگئے، جو شریک کار تھے وہ رفیق سفر ہوگئے؛ (2) مولانا انصاری نے شعبہ دینیات قائم کر کے اس کا نصاب مدارس کی مروجہ اور مستند روایات کے مطابق بنا کر لوگوں کےان شبہات کو دور کردیا جو انہیں سرسید کے عقائد کی ترویج کے سلسلہ میں لاحق تھے؛ (3) مولانا انصاری کی تدریس و تربیت اور موجودگی سے کالج میں ایسی دینی فضا قائم ہوئی جس سے عقیدہ اور عبادات اور شعائر کا تحفظ ہوا؛ (4) مولانا انصاری کے علمی مقام سے ملک کے مختلف ادارے مستفید ہوئے۔ خاص طور پر ندوةالعلما کی تاسیس اور ترقی میں مولانا نے خصوصی رہنمائے فرمائی؛ (5) مولانا انصاری کا وجود علماء اورجدید ذہن کے درمیان ایک رابطہ بن گیا جس نے مستقبل میں تعاون کی راہیں ہموارکیں؛ (6) مولانا انصاری کے ابتدائی کام نے یونیورسٹی میں سنی اور شیعہ دینیات کی فیکلٹی، اسلامک اسٹڈیز، عربی، فارسی، اردو وغیرہ کے لئے راہیں ہموار کیں۔‘
عابداللہ صاحب مزید لکھتے ہیں: ’سرسید کی غیر معمولی قدردانی، مولانا انصاری کی دینی تعلیمی خدمات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان سے جو امیدیں سرسید نے قائم کی تھیں وہ پوری ہوئیں اور مرتے دم تک سرسید کی عقیدت واحترام میں فرق نہیں آیا، اور آخرت کے سفر کی امامت کے لئے انہوں نے مولانا انصاری کو منتخب فرمایا۔‘
جن لوگوں کا ذہن آج ڈیڑھ سو سال بعد بھی سرسید کے اصل مشن اورمقاصد سے متعلق صاف نہیں شاید مولانا عبداللہ انصاری صاحب کی تقرری سے پہلے لکھا گیا سرسید کا یہ خط ان کی آنکھیں کھول دے۔ کتاب میں پورا خط شامل ہے مگرمضمون کی طوالت کے پیش نظر یہاں اس کے چند اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں:
’۔۔۔ مدرستہ العلوم ایک ایسی جگہ ہے جہاں کثرت سے مسلمان نوجوان جمع ہیں، ان میں نیکی اور اخلاق محمدی اور محبت اسلامی اور پابندی فرائض مذہبی کو پھیلانا اور ان کے دلوں کو نرمی اور اخلاق سے نہ تشدد اور سختی اور تعصب اور تشقف سے نیکی کی طرف مائل کرنا ایک مذہنی اور ثواب کا کام ہے۔۔۔ مولوی عبداللہ صاحب فرزند ہیں مولوی انصارعلی صاحب کے، نواسے ہیں مملوک علی صاحب کے، داماد ہیں مولوی محمد قاسم صاحب کے اور ان سب بزرگوں سے مجھے ذاتی واقفیت تھی اور امید ہے کہ ان بزرگوں کی صحبت کے فیض سے مولوی عبداللہ صاحب کی بھی ایسی ہی طبیعت ہے کہ دینی کاموں کو بہ لحاظ دین اور بہ لحاظ محبت اسلام انجام دیں۔۔۔مدرسے میں قیام پذیر ہونے میں جن کاموں کے انجام کی ان سے خواہش ہے وہ یہ ہیں اول: مسجد کا اہتمام اور نماز پنجگانہ کا انتظام ان کے متعلق رہے اور پانچوں وقت کی نماز وہ خود پڑھادیا کریں۔ ان کے سبب سے جماعت کو ترقی ہو گی اور طالب علموں کو نماز باجماعت کی زیادہ ترغیب ہو گی۔ دوسرے یہ کبھی کبھی جمعہ کی یا اور کسی نماز کے بعد بطوروعظ کے طالب علموں کو کسی قدر نصیحت کردیا کریں۔ کالج کے طالب علم خود تعلیم یافتہ ہیں اور متعدد قسم کے علوم سے واقفیت رکھتے ہیں، ان کے لئے زیادہ تر مفید یہ ہوگا کہ اخلاق اورعادات محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صحابہ کرام اور دیگر بزرگان دین کی نیکیوں اور حسن اخلاق اور خدا پرستی اور خدا کی محبت اوراحکام مذہنی کے خلوص سے ادا کرنے، والدین اور استاد کے ادب اور آپس میں مسلمانوں کی ہمدردی، عقائد مذہب اسلام کی خوبی اور سادگی، واحدانیت خدا کی عظمت و شان، قرآن مجید کی خوبی اور جناب رسالت مآب کی ہدایات کی خوبی اور برتری سے وقتاً فوقتاً ان کا آگاہ کیا جاوے جس سے طالب علموں کے دلوں میں نیکی پیدا ہو اور ان کے دل سچائی اور باہمی محبت اسلامی اور نیکی کی طرف مائل ہوں۔۔۔ زیادہ تر میرا مقصد یہ ہے کہ طالب علموں کے دلوں میں نماز پنج گانہ اور با جماعت نماز ادا کرنے کا شوق پیدا ہو یا عادت پڑجاوے۔۔۔ جو لوگ جماعت میں غیر حاضر ہوتے ہیں ان سے مواخذہ کیا جاتا ہے اور تدارک بھی ہوتا ہے۔۔۔ جو بلاوجہ اکثر جماعت سے غیر حاضر ہوتے ہیں۔۔۔ مولوی صاحب کسی وقت ان کو علیحدہ تخلیہ میں بلا کر نصیحت کریں گے اور سمجھاویں گے کہ نماز پڑھنی اور جماعت میں شریک ہونا چاہئے۔۔۔ غرض کہ اس قسم کی مشفقانہ نصیحتیں زیادہ کار آمد ہوں گی اور ان دنیاوی سزاؤں سے جو پرنسپل صاحب نماز کی غیر حاضری کے سبب دیتے ہیں زیادہ ترکارگر ہوں گی۔‘
سرسید کے طویل خط سے اس اقتباس سے آپ خود اندازہ کرلیجئے کہ سرسیدعلیہ رحمہ اس کالج کے ذریعے کیا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ کالج میں دینی تعلیم اورطلبا میں دین کے تئیں رغبت پرنورالحسن راشدی صاحب رقم طراز ہیں: ’کالج میں طلبہ کے دل میں نماز کی اہمیت، اس کے لئے خود امامت اور درس ووعظ کی جن خدمات کا سرسید کے خط میں تذکرہ آیا ہے کہ وہ ابتداء ہی سے نظر آنے لگا تھا۔۔۔
’مولانا عبداللہ انصاری کی کوشش سے طلبہ میں ایسا رنگ پیدا ہوگیا تھا کہ طلبہ خود ہی مسجد آنے کے پابند ہوگٗے تھے اور نمازوں میں اس قدر اہتمام سے آتے کہ مسجد بھرجاتی اور ہر طرف طلبہ کا جمگھٹا نظر آتا۔‘
وہ اس ضمن میں علامہ شبلی نعمانی کا ایک خط نقل کرتے ہیں:’مغرب کی نماز سبحان اللہ کیا شان و شوکت ہوتی ہے کہ بس دل پحٹا پڑتا ہے۔ خود سید صاحب بھی شریک نماز ہوتے ہیں اور چونکہ وہ عامل بالحدیث (غیر مقلد) ہیں آمین زور سے کہتے ہیں ان کی آمین کی گونج مذہبی جوش کی رگ میں کون بڑھادیتی ہےمجھ کو اس بات کا فخرحاصل ہے کہ اس نئی زندگی کے پیدا ہونے میں میرا بھی حصہ ہے۔‘
شبلی کے آخری جملے پر تبصرہ کرتے ہوئے نورالحسن صاحب لکھتے ہیں: ’مولانا شبلی نے یہ تاثردیا ہے کہ طلبہ میں تبدیلی اور دین کی طرف توجہ ان کی تربیت کا ثمرہ ہے۔ ممکن ہے کہ اس میں شبلی کی تربیت اور محنت کا بھی کچھ حصہ رہا ہو لیکن مولانا شبلی کا شعبہ دینیات سے بہت زیادہ رابطہ نہیں تھا۔ وہ صرف قرآن شریف کا درس دیتے تھے جس میں طلبہ ذوق شوق سے شریک ہوتے تھے لیکن نماز میں طلبہ کی بڑی تعداد میں آنے والے اور دین و مذہب سے ان کی گہری وابستگی میں مولانا عبداللہ انصاری کی محنت کارفرما تھی۔‘
مولانا انصاری کا ایک خصوصی امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ علیگڑھ کالج میں مقرر ہونے والے سب سے پہلے ڈین تھے جن کا تقرر کالج کے عام ضابطہ سے ہٹ کر سرسید کے ذاتی فیصلے اورخصوصی اختیارات سے ہواتھا جس میں کالج کے ممبروں اور انتظامیہ کو مداخلت کی اجازت نہیں تھی۔
اس کتاب میں نورالحسن راشد صاحب نے سرسید کی جو نایاب تحاریروتقاریرحوالوں کے طور پر نقل کی ہیں کاش موجودہ انتظامیہ، علیگڑھ کے اساتذہ اورطلبا انہیں پڑھ کراپنے رویے پر غور کرلیں۔ لکھتے ہیں: ’مگر سرسید کے سامنے ہی اس تحریک نے ایسی کروٹ بدلی کہ اس کے اور مقاصد پر سے توجہ کم ہوتی چلی گئی اور بالآخر وہ مقاصد نگاہوں ہی سے یوں اوجھل ہوگئے کہ اب ان کی نشاندہی تو بڑی بات ہے ایک جھلک بھی دکھادی جائے تو علیگڑھ سے وابستہ با خبر اصحاب کو بھی حیرت ہوتی کہ اچھا یہ بھی تھا۔‘
معلوم نہیں اپنے اپنے مقصد کے لئے سرسید کی کون کون سی تحریروں کو توڑمروڑ کر پیش کیاجاتا ہے۔ کتنے لوگوں کو اس محسن قوم کے طلباء کے لئے اس پیغام کو پڑھا ہوگا:
’اسلام جس پر تم کو جینا ہے اور جس پر تم کو مرنا ہے اس کو قائم رکھنے سے ہماری قوم کے عزیز بچے اور کوئی آسمان کا تارا ہوجائے مگر مسلمان نہ رہے تو ہم کو کیا، وہ تو ہماری قوم ہی نہ رہا۔ پس اسلام قائم رکھ کر ترقی کرنا قومی بہبودی ہے۔ امید ہے کہ تم ہمیشہ اس کو قائم رکھو گے اور اس کے ساتھ تمام باتوں میں ترقی کرتے جاؤ گے کہ قومی ترقی ہوگی جو تم کو بھی فائدہ دے گی اور قوم کو بھی عزت ہوگی اور آئندہ آنے والی نسلیں بھی اس سے فائدہ اٹھاویں گی۔‘
سرسید سے علمائے دیوبند کو جو بھی اختلافات رہے ہوں مگرشروع کے چند سالوں کے علاوہ دونوں کے درمیان گہرے روابط رہے۔ سرسید کا تو خود یہ حال تھا کہ مولانا عبداللہ کی موجودگی کو کالج میں باعث برکت سمجھتے تھے اورمولانا قاسم نانوتوی کے لئے تو جو ان کے جذبات تھے وہ ان کی موت پر لکھے گئے ان کے تعزیتی مضمون میں دیکھنے کو ملتا ہے (یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ اپنے بھانجے اورداماد کے علیگڑھ جانے پر مولانا قاسم کی ناراضگی کا شاید کوئی ثبوت نہیں ملتا یا کم اس کم اس کتاب میں موجود نہیں ہے) جسے راحت ابرارصاحب نے اپنے مضمون میں من و عن نقل کیا ہے، یہ پورا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں اس کے چند اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں:
’زمانہ بہتوں کو رویا ہے اور آئندہ بھی بہتوں کو روئے گا لیکن ایسے شخص کے لئے رونا جس کے بعد کوئی اس کا جانشین نظر نہ آوے نہایت رنج و غم اور افسوس کا باعث ہوتا ہے۔۔۔ مولوی قاسم صاحب مرحوم نے اپنی کمال نیکی اور دینداری اور تقویٰ اور ورع میں معرف ومشہور تھے ویسے ہی نیک مشاج اور سادہ و صفی مسکینی میں بے مثل تھے لوگوں کا خیال ہے کہ بعد جناب مولوی محمد اسحاق صاحب کے کوئی شخص ان کی مثل تمام صفات میں پیدا ہونے والا نہیں ہے۔ مگر مولوی محمد قاسم صاحب نے ۔۔۔ ثابت کردیا کہ اس دلی کی تعلیم و تربیت کی بدولت مولوی اسحاق صاحب کی مثل اور شخص بھی خدا نے پیا کیا ہے بلکہ چند باتوں میں ان سے زیادہ ہے۔‘
دارالعلوم دیوبند کی پہلی رپورٹ موصول ہونے پرسرسید نے اپنے تاثرات کا اظہاریوں کیا تھا: ’دیوبند ایک چھوٹی سی بستی ہے کوئی بہت بڑا نامی گرامی شہر نہیں مگر اس کے باشندوں کی عالی ہمتی اور نیک نیتی کو دیکھ کر بڑے بڑے مشہور شہروں پر اس کو فوق دینا واجب ہے۔۔۔ آفرین کہ ان کی توجہ سے اس تھوڑے سے عرصہ میں بہت کچھ ترقی، تعداد اور استعداد ظہور میں آئی۔‘
مولانا عبداللہ انصاریؒ کا شجرہ نصب صحابی رسول حضرت ابوایوب انصاریؓ سے ملتا ہے۔ اس موضوع پرطارق غازی صاحب کا تفصیلی اور تحقیقی مضمون بہت اہمیت کا حامل ہے۔
کالج کے شروع کے دنوں کے ماحول اور مولانا عبداللہ انصاری کی محنت کے ثمرات کے ضمن میں شاہ افغانستان امیر حبیب اللہ خان کے ایک دورے کے دوران ایک واقعہ قارئین کی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ جب شاہ افغانستان کو شعبہ دینیات کا دورہ کرایا گیا توانہوں نے طلباکا امتحان لئے بغیر کوئی رائے دینے سے انکار کردیا۔ امتحان کے لئے مولانا عبداللہ 50 طلبا کو لے کر حاضر ہوئے۔ شاہ اٖفغانستان نے ان میں سے چند طلبہ منتخب کئے اور ان کو اپنے قریب بلا کر سوالات کئے۔ ایک طالب علم سے کہا کہ جو کچھ تمہیں قرآن میں سے یاد ہے سناؤ۔ اس نے سورۃ آل عمران کا ایک رکوع بہت خوش الھانی سے مصرہ لہجے میں پڑھنا شروع کیا۔ جس سے: ’تمام حاضرین پر کیف اور وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ امیر حبیب اللہ۔۔۔ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے جو داڑھی کر تر کرتے ہوجے نیچے گررہے تھے۔۔۔ بچے نے تلاوت ختم کی توامیر حبیب اللہ اپنی کرسی سے کحڑے ہٗے اور نہایت جوش میں کبھی فارسی میں کبھی اردو میں اور کبھی انگریزی میں باربارکہتے اور دہراتے تھی کہ: اس مرسہ کی جو بدگوئی مجھ سی کی گٗی سب غلط اور جھوٹ ہے۔‘
بعد میں امیر نے خود تسلیم کیا انہوں نے جان بوجھ کر مشکل فقہی سوالات کئے تھے اور تبصرہ کیا کہ: ’ہم نے طلبہ کا امتحان لے کر اپنی تشفی کرلی اب ہمارا جواب ہے کہ سب بہت اچھا اور ہم بہت خوش۔‘
یہ کتاب ان تمام لوگوں کو لازماً پڑھنی چاہئے جو سنی سنائی بے بنیاد باتوں پر یقین کر کے اکابرین اورمحسنین ملت سے بلاوجہ متنفر ہیں اور جس میں دینی رحجان والے اورغیر دینی مزاج والے سب شامل ہیں۔ کاش ایسی کتاب انگریزی میں ہوتی۔ بدقسمتی سے اردو میں ہونے کی وجہ سے نئی نسل کی بڑی تعداد اس میں فراہم کردہ معلومات سے محروم رہے گی۔
تبصرہ نگارکا مصنف کو ذاتی شکریہ
خاکسار کا آبائی وطن دیوبند ہونا اورچمن سرسید سے فیض حاصل کرنا ہی نورالحسن راشدی صاحب کا احسان مند ہونے کے لئے کافی تھا۔ مگر اس احسان مندی میں ایک بہت ذاتی پہلو بھی شامل ہوگیا۔
بچپن میں اپنے دادا مرحوم حافظ عبدالجلیل خان صاحب اورخاندان کے دوسرے بزرگوں کی زبانی سنا تھا کہ میرے دادا کے دادا مولانا عبد العزیز خان صاحبؒ دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہونے والے پہلے بیچ میں تھےجس کے بعد وہ اس تاریخی ادارے میں محدث بھی رہے۔ یہ بات دیوبند میں تمام عزیزوں میں عام طور پر مشہور ہے کہ مولانا عبدالعزیز خان صاحب ایک جید عالم تھے۔ دادا جان مرحوم کے مطابق مولانا عبدالعزیز خان صاحب صوفی صفت عالم تھے جن کا اکثر وقت مطالعے اور عبادات میں گزرتا تھا۔ خاندانی روایات کے مطابق مولانا عبد العزیز خان صاحب نے کچھ کتابیں بھی تصنیف کی تھیں اور ان کی بہت بڑی ذاتی لائبریزی بھی تھی ۔ ان کے انتقال کے بعد یہ تمام کتب دارالعلوم دیوبند کوڈونیٹ کر دی گئی تھیں، کیونکہ ان کے بعد اس علمی اثاثے کو سنبھالنے والا خاندان میں کوئی نہیں رہا تھا۔ مولانا عبدالعزیز خان صاحب کے فرزند اور میرے پردادا عبدالحفیظ خان صاحب کی تمام تر دلچسپی زمین داری اور مقامی سیاست میں تھی (وہ اس وقت میونسپلٹی کے ممبربھی تھے)۔
یہ باتیں بچپن سے سنتے چلے آرہے تھے مگر دارالعلوم کی صد سالہ تقریبات پر ادارے کی جانب سے جو فہرست شائع کی گئی تھی اس میں مولانا عبدالعزیز خان صاحب کا نام نہ تو طلبا کی فہرست میں تھا اور نہ اساتذہ کی۔ اس کے بعد مجھ سمیت خاندان کے دیگر لوگوں کو مولانا عبدالعزیزخان صاحب سے متعلق خاندانی روایات کی صداقت پر شبہ ہونے لگا تھا، کیونکہ جوروایات خاندان میں بیان کی جاتی رہی تھیں وہ صرف زبانی تھیں اوران کا کوئی تحریری ثبوت نہیں تھا۔ نورالحسن راشد کاندھلوی صاحب کا مجھ پراورہمارے خاندان پریہ ذاتی احسان ہے کہ انہوں نے کتاب ہٰذا میں مولانا عبدالعزیز خان کے دارالعلوم کے پہلے بیچ میں ہونے کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔
میرے والد کی ایک پھوپی نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ ایک مرتبہ وہ اور خاندان کی کچھ خواتین مولانا حسین احمد مدنیؒ سے ملنے گئیں تو انھوں نے کھڑے ہوکر اور یہ کہہ کراستقبال کیا تھا کہ ’ان کا تعلق میرے استاد کے خانوادے سے ہے۔‘
’مرج البحرین‘ میں مولانا عبدالعزیز خان کا نام دیکھ کرایک دوست نے حال ہی میں شائع ہوئی ’دارالعلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ‘ پر بھی ایک نظرڈالنے اور مولانا عبدالعزیز صاحب کا نام اس میں نہ ہونے پر متعلقین سے شکایت کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کے مشورے پر عمل کیا تو صفحہ 760 پر(اس صفحےکی فہرست مضمون کے ذیل میں دیکھئے) بارہویں نمبر پر اساتذہ کی فہرست میں مولانا عبدالعزیزخان کا نام دیکھ کراور یہ سوچ کر کہ ہم اپنے بڑوں کی نیت پر شبہ کر رہے تھے اور ان کی باتوں کو پدرم سلطان بود کے ذمرے میں رکھ رہئ تھے خود اپنے آپ سے شرمندگی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کے خلاف اس بدگمانی کے لئے معاف فرمائے۔
مرج البحرین سے چند اقتباسات:
’عام طور پر یہ لکھا اور کہا جاتا ہے کہ دارالعلوم کے فارغین کی سب سے پہلے جماعت وہ تھی جس میں حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی شامل تھے مگر یہ اطلاع شہرت اور کثرت نقل کے باوجود صحیح نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دارالعلوم کے فارغین کی سب سے پہلی جماعت وہ ہے جس میں مولانا عبداللہ انصاری وغیرہ شامل تھے ان ہی کو دارالعلوم سے سب سے پہلے فارغ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مولانا انصاری کے رفقاء میں جن لوگوں کے نام روداد میں درج ہیں وہ یہ ہیں:
’مولوی محمد مراد صاحب پاک پٹنی، مولوی عبداللہ خان صاحب گوالیاری، مولوی عبداللہ صاحی انبیٹوی اور مولانا عبد العزیز خان دیوبندی جن کے بارے میں دعویٰ ہے کہ دار العلوم کے سب سے پہلے طالب علم وہی تھے۔