تحریر: ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
اترپردیش اسمبلی انتخابات جیسے جیسے قریب آرہے ہیں فرقہ وارانہ سیاست کے ممکنہ ایجنڈے بھی سامنے آتے جارہے ہیں، اترپردیش کے نائب وزیراعلی سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی اہم سینئر لیڈران نے ایک بار پھر ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے ساتھ ہی متھرا میں کرشن مندر بنانے کی آواز بلند کی ہے، وہیں دوسری طرف بھگوا تنظیموں نے 6 دسمبر کو متھرا شاہی عیدگاہ مسجد میں مورتی رکھنے کی دھمکی دے کر مسلمانوں کو مزید بے چین کردیا ہے۔ بابری مسجد انہدام کے وقت ہونے والی فرقہ وارانہ تقریروں اور نعروں میں بھی یہ دعوی شامل تھا کہ بابری مسجد کے بعد اگلا نشانہ متھرا شاہی عیدگاہ مسجد ہوگا، کاشی کی گیانواپی مسجد بھی ان کے نشانے پر ہے۔
بابری مسجد شہید کردی گئی، بابری مسجد کے فیصلے میں عدالت عالیہ نے بھی یہ اقرار کیا ہےکہ بابری مسجد کی تعمیر رام للا پر ہوئی اس بات کے کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں، نیز بابری مسجد کا انہدام ایک مجرمانہ عمل تھا، لیکن اس کے باوجود بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانے کا فیصلہ بھی سنادیا گیا اور اس فیصلے کی بنیاد ہندو دھرم کے ماننے والوں کا عقیدہ بتایا گیا۔
وہیں دوسری طرف مسجد کے انہدام کو جرم تو تسلیم کیا گیا تاہم 30 ستمبر 2020 کے دن لکھنؤ کی خصوصی سی بی آئی عدالت نے بابری مسجد انہدام کیس کے تمام ملزمان کو شواہد کی کمی کی بنیاد پر بری کر دیا اور اس کے فیصلے میں یہ تسلیم کیا گیا کہ مسجد کو منہدم کرنے کی کوئی سازش نہیں ہوئی تھی۔ یقیناً بابری مسجد کے انہدام سے لے کر عدالت عالیہ کے آخری فیصلے تک مجرمین کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی۔ جس وقت بابری مسجد دن دہاڑے شہید کی جارہی تھی اس وقت وہاں موجود بی جے پی و دیگر ہندتوا تنظیموں کے قائدین ’’یہ تو کیول جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے‘‘ جیسے نعرہ لگا رہے تھے۔ اور آج یہی مجرمین اور ان کے پیروکار علی الاعلان متھرا مسجد پر نشانہ سادھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس دن لکھنؤ سی بی آئی عدالت نے ملزمین کو بری کیا اسی دن 30 ستمبر کو اترپردیش کے متھرا ضلع کی ایک عدالت میں متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کا تنازع اٹھادیا گیا۔
بابری مسجد رام جنم بھومی مقدمے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایسا محسوس ہوا تھا کہ اب کسی دوسری مسجد یا مذہبی مقام کے ساتھ فرقہ پرست طاقتیں چھیڑ چھاڑ نہیں کرسکیں گی، کیونکہ عدالت عالیہ نے رام جنم بھومی کے اپنے تاریخی فیصلے میں سنہ 1991 کے پلیسز آف ورشپ ایکٹ (عبادت گاہوں کے قانون) کا بھی حوالہ دیا تھا۔ سنہ 1991 میں کانگریس حکومت نے عبادت کے مقامات سے متعلق مخصوص قانون منظور کیا تھا۔ اس قانون کے مطابق ہمارے پورے ملک میں 15 اگست 1947 کو جو مذہبی مقام جس شکل میں تھا وہ اسی حیثیت میں رہے گا۔ اس قانون میں ایودھیا تنازع کو شامل نہیں کیا گیا تھا یعنی کانگریس حکومت نے 1991 میں ہی باقاعدہ یہ منظور کرلیا تھا کہ بابری مسجد کو کسی بھی قسم کا قانونی تحفظ فراہم نہیں کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ 6 دسمبر 1992 میں کانگریس کے وزیراعظم نرسمہاراو کے ہی دور اقتدار میں پورے ملک سے کارسیوک ایودھیا میں جمع ہوکر بابری مسجد کو دن دہاڑے منہدم کردیتے ہیں اور مرکزی حکومت کسی بھی طرح سے بابری مسجد ڈھانچے کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کرتی ہے ۔بہرحال اس قانون کا اطلاق بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی مسجد سمیت ملک کے تمام دیگر مذہبی مقامات پر ہوتا ہے۔
اس قانون کے مطابق کسی مذہب یا اس کے کسی فرقے کی عبادت گاہ کو اسی مذہب کے کسی دوسرے فرقے یا کسی دوسرے مذہب یا اس کے کسی فرقے کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ نیز یہ کہ 15 اگست 1947 کو موجود عبادت گاہ کی مذہبی شکل ویسے ہی رہے گی جیسی کہ وہ اس دن یعنی 15 اگست 1947 کو تھی۔ تحفظ برائے عبادت گاہ قانون کی روشنی میں اگر 15 اگست 1947 کو کسی مذہبی عبادت گاہ کے حق ملکیت سے متعلق تنازع کا کوئی مقدمہ، اپیل یا کارروائی کی کوئی اور درخواست کسی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی میں پہلے سے زیر التوا ہے تو وہ ردّ یعنی منسوخ کردی جائے گی اور اس طرح کے کسی بھی معاملے میں کوئی مقدمہ، اپیل، یا کوئی اورقانونی کارروائی کسی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی کے سامنے نہیں پیش کی جاسکے گی۔
عید گاہ مسجد میں مورتی رکھنے کی دھمکی مقامی عدالت میں مسجد کے خلاف داخل کی گئی کئی پٹیشنوں کے بعد دی گئی ہے۔ان پٹیشنوں میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ بھگوان کرشن کی جائے پیدائش کی جگہ پر 1669 میں مغل بادشاہ اورنگ زیب نے وہاں موجود کرشنا مندر کو توڑ کر متھرا میں شاہی عیدگاہ مسجد تعمیر کرائی تھی، اس لیے اس متنازع زمین یعنی تقریبا 13.37 ایکڑ زمین کے مالکانہ حق کو ہندوؤں کے حوالے کردیا جائے، جب کہ شری کرشن جنم استھان سیوا سنستھان اور شاہی عیدگاہ مسجد انتظامیہ کمیٹی کے درمیان تقریبا پانچ دہائی قبل 1968 میں ہوئے صلح معاہدے کو بھی خلاف قانون بتاتے ہوئے عدالت میں درخواست گزاروں نے شاہی عیدگاہ والی مسجد کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جس اراضی پر شاہی عیدگاہ کی مسجد تعمیر ہے اس کے نیچے کرشن جنم بھومی ہے۔ متھرا ضلع انتظامیہ نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے دفعہ 144 کا نفاذ تو کردیا ہے تاہم مسلمانوں کو خوفزدہ کرکے اکثریتی طبقے کو ایک کمیونل ایجنڈہ دینے میں فرقہ پرست طاقتیں کامیاب ہوتی نظر آرہی
ہیں۔
آنے والے سال 2022 میں کل 7 صوبوں میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں جن میں اترپردیش، پنجاب اور گجرات بھی شامل ہیں، جب کہ 2023 میں کل 9 صوبوں میں اسمبلی الیکشن ہونے ہیں جن میں مدھیہ پردیش، کرناٹک، چھتیس گڑھ اور راجستھان بھی شامل ہیں۔ اس طرح کیا یہ سمجھنا درست ہوگا کہ اسمبلی انتخابات سے عین قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران و دیگر ہندتوا رہنماوں کے ذریعہ متھرا عید گاہ اور شری کرشن مندر کا تنازعہ زندہ کرکے اور اترپردیش کے نائب وزیراعلی کے ذریعہ سوشل میڈیا پر نفرت آمیز اور بھڑکانے والا ٹویٹ، کیا یہ سب مل کر یہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بابری مسجد کے انہدام پر بات ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ آنے والے سالوں میں بھی فرقہ واراریت ہی ہمارے ملک کی سیاست کا محور ہوگی۔
کرناٹک کے ایک بی جے پی لیڈر اور پنچایت راج وزیر کے ایس ایشورپا نے 5 اگست 2020 کو متھرا اور کاشی کی دونوں متنازع مساجد کے بارے میں یہ بیان دیا تھا کہ” یہ غلامی کی علامتیں ہیں اور غلامی کی ایک ایک علامت ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ آپ غلام ہو‘‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’دنیا کے تمام ہندوؤں کا یہ خواب ہے کہ وہ غلامی کی علامتوں کو اسی طرح مٹا دیں جس طرح ایودھیا میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’متھرا اور کاشی کی مساجد کو بھی تباہ کر دیا جائے اور وہاں مندروں کی تعمیر عمل میں لائی جائے گی‘‘۔
تاریخ کو مسخ کرکے اسے ایک گھناؤنی شکل میں ہندو مخالف بناکر پیش کرنا ہندتوا تحریک کی ایک بڑی سازش رہی ہے، نصاب میں تبدیلی اور تاریخ میں تخریب خاص طور سے 2001 میں شروع ہوئی جب این ڈی اے سرکار مرکز میں برسراقتدار آئی، تاریخ کو مسلم مخالف بناکر پیش کرنا دو قوموں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کا آسان طریقہ ہے کیونکہ مسلم بادشاہوں کے نام سے موسوم ظلم و زیادتی کی داستانیں ملک میں موجود مسلم طبقے کے خلاف بدلہ لینے کے جذبات بھڑکاتی ہیں۔
شہروں کا نام تبدیل کرنے کی پالیسی دراصل ایک پیغام ہے کہ ہم غلامی و ظلم و زیادتی کی نشانیوں سے آزاد ہورہے ہیں، ملک میں مروجہ فوجداری قوانین کی روشنی میں اترپردیش کے وزیراعلی کا ٹویٹ ایک جرم کا ارتکاب ہے، لیکن جب ہمارے نظام عدلیہ سے بابری مسجد کے قاتل اتنی آسانی سے باعزت بری ہوسکتے ہیں جنہوں نے دن کے اجالے میں مسلم مخالف تقریرں کی تھیں، جنہوں نے پورے ملک سے کارسیوکوں کو جمع کرنے کے لیے پورے ملک میں یاترائیں کی تھیں، جن کے خلاف چشم دید گواہ موجود ہیں، اور 6 دسمبر 1992 کے دن ہونے والے حادثے کے فوٹوز اور ویڈیوز بھی موجود ہیں، لیکن عدالت میں کچھ بھی ثابت نہ ہوسکا۔ کیا ہمارے نظام عدلیہ میں واقعی یہ سکت نہیں ہے کہ بارسوخ افراد کو ان کے جرائم کی سزا دی جاسکے؟
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)