مولانا عبدالحمید نعمانی
بھارت ایک عظیم ملک ہے ، اس میں بہت کچھ ہے اگر اسے صحیح طریقے سے استعمال کیاجاتا اس کی وہ حالت نہ ہوتی، جو بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی ہوگئی ہے۔ فرقہ وارانہ نظریے اور خطوط پرتاریخ کا مطالعہ عموما غلط اثرات و نتائج تک پہنچا تا ہے۔ غلط اور من گھڑت کہانیوں اور ذہنی جنسیت زدگی کے طور پرحکمرانوں کی کردارکشی کے عمل میں وہ پست فطرت ، غلاظت پسند عناصر بھی شامل ہوگئے ہیں، جن کا بہتر سماج بنانے اور انسانیت کے لیے کوئی کردار نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکیزہ اور باکردار معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں کئی طرح کی رکاوٹیں کھڑی ہوجاتی ہیں،جہاں گیر، شاہ جہاں،اورنگزیب، شیواجی،جہاں آرا،زیب النساءسب تاریخ کے متحرک مسلم کردار ہیں، ان کے متعلق یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ فطری جذبات و خیالات سے عاری وخالی تھے، کسی بھی آدمی میں فطری جنسی جذبے کا ہونا اس کی خوبی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ من گھڑ ت کہانیوں اور جنس کے متعلق مکروہ اور آواراہ ذہنیت کے تحت سماج کو غیر متواز ن راستے پر ڈال کر جنسی انتشارو انارکی میں مبتلا کردیا جائے، جہاں گیر پرنور جہاں کو حاصل کرنے کے لیے اس کے شوہر، شیرافگن کا قتل ، شیواجی اور زیب النساءکے درمیان معاشقہ، شاہ جہاں اور جہاں آرا کے باپ بیٹی کے پاکیزہ تعلقات کو مکروہ شکل میں پیش کرنے کے معاملے، سماج کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں ہے،جہاں گیر، نورجہاں اور شیواجی اوراورنگ زیب کی بیٹی زیب النسا کے معاملے کی امکانی توضیح و تاویل کی گنجائش نکالنے کی کوشش کی جاسکتی ہے، لیکن شاہ جہاں اور اس کی بیٹی جہاں آرا کے باپ بیٹی کے پاکیزہ تعلقات کو مکروہ شکل میں پیش کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اسے کسی بھی طرح سے امکانی درجے میں بھی تسلیم کرنے سے آدمی کی کمینگی اور اس کی غلاظت پسند ی کے ثبوت کے لیے کافی و وافی ہے، باپ ،بیٹی، کا رشتہ عالمی سطح تمام سماج میں مقدس اور ہرطرح کے شک و شبہ سے بالاتر تسلیم کیا جاتارہا ہے۔
فرائڈ نے تمام طرح کے رشتے ناطے کی تشریح وتعبیرجنسی بنیا د پر کرکے سماج کو غلط راستے پر ڈالنے کا کا م کیا ہے، اس سے پہلے بھی اعلی مقصد حیات سے محروم مغر ب و یورپ اور بھارت میں کوک شاستر، اجنتا، ایلورا کے پیدا کردہ ماحول میں پاکیزہ تعلقات کی مکروہ تصویر کشی کو تسلیم کرنے کے متعلق زیادہ مزاحمت نظر نہیں آتی ہے، اسی ذہنیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جہاں آرا جیسی صاحب تقویٰ ، پاک طینت، کریم النفس خاتون کے کردار اور ذات کو مکروہ شکل میں مجروح کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کی مختلف قسم کی قومی و سماجی خدمات اور تاریخی رول کو تباہ کرنے کے مکروہ عزائم کے تحت کئی سطح پر کام کئے گئے ، شاہ جہاں کی وطنی خدمات کے علاوہ ، لال قلعہ ، جامع مسجد اور تاج محل جیسے شاندار، خوبصورت ، آثار نے بھی ان عناصر پر ضرب لگانے کاکا م کیا ہے، جو ذوق جمال اور تاریخی شعور سے عاری و نابلد ہوتے ہیں، مغرب و یورپ کے مصنّفین وسیاح عموماً اپنی مخصوص ذہنیت کے سبب جنسی پہلونکالنے کی غیرمتعلق اور غیر ضروری سعی نا مشکور کرتے نظر آتے ہیں اور بھارت میں غلامانہ ذہینت کے لوگ،اپنی کاہلی کی وجہ سے کوئی تحقیق وتلاش کئے بغیر، مکروہ و مبغوض عمل میں شامل ہوجاتے ہیں، ہم نے بارہا شاہ جہاں اور ا س کی باکمال بیٹی جہاں آرا کے باپ بیٹی کے مقدس تعلقات کو مکروہ شکل میں پیش کرتے دیکھا سنا ہے، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلم قوم اس طرح کی ہوتی ہے، ہمارے گاو ں کے مصر ی گروجی جن سے ابتدائی ہندی، سنسکرت کی تعلیم میں مدد ملی مسلم حکمرانوں پر سخت تنقید کرتے تھے اور من گھڑت کہانیوں کو بھی اس سے جوڑ دیتے تھے ، یہی حال انوردھ جھا کا تھا، ان کی زمین اور آم کے پیڑ ،گاو ں کے باہر ہمارے مکانوں سے بالکل متصل ، درمیان کے ایک سڑک کے فاصلے پر ہیں یہ دونوں سنگھ کی آئیڈیالوجی سے متاثر تھے، لیکن وہ مہذب قسم کے آدمی تھے، باتیں سلیقے سے، اشارے اشارے میں کرتے تھے، سماجی تعلقات اورباہمی اعتمادقائم تھا، کہتے تھے یہ مسلمان تو ہندستانی ہیں،بھروسہ رکھو، فصل اور آم کا کچھ نہیں ہوگا۔ جھا جی ہماری نانیہال کے گاو ں کرما کے قریب مال منڈور کے اسکول میں پڑھاتے تھے ، ہم نے شاہ جہاں اور جہاں آرا اوردیگر تبصرے کا مدلل جواب، ذی علم نانا جان محمد علیؒ اور (دادی کے سگے بھائی) دادا اہرامؒ جو علاقے میں حساب، ہندی، سنسکرت کے حوالے سے دادا گرو کہلاتے تھے سے علمی استفادہ کرکے دیا تھا ۔نانا جان ؒ نے کہا کہ مصری گرو جی اورجھا جی سے پہلے نمبرپرحوالے کے متعلق دریا فت کرو، پھر آگے کی بات کرو، ہم خود دونوں کے پاس جاکر بار باتیں کیں ، وہ یہ کہہ کر دوسری باتیں کرنے لگتے تھے کہ یہ تو تاریخی باتیں ہیںوہ خاندانی مہذب اورشریف لوگ تھے، اس لیے زیادہ نیچی سطح تک نہیں آتے تھے۔ یتی نرسنہا نند سرسوتی جیسے برہنہ گفتار، غیر مہذب، شرافت و شرم سے دور لوگوں کی طرح نہیں تھے، گذشتہ دنوں جب تاج محل کو تیجو محالیہ ثابت کرنے کی مہم شروع ہوئی تو ان جیسے عناصر کی طرف سے شاہ جہاں پرحملہ کرتے ہوئے باب بیٹی کے مقدس رشتے کو داغدار کرنے پر توجہ وطاقت لگائی گئی۔
دہلی سے متصل ڈاسنہ کے سادھوبھیس میں شیطان نے ٹی وی چینل پرکہا کہ شاہ جہاں جیسے حملہ آور اور ادھرمی سے کسی اچھے کام کی امید نہیں کی جاسکتی ہے، اس کی اپنی بیٹی سے غلط تعلقات تھے ، اس نے طاقت سے تیجو محالیہ کو تاج محل میں بدل دیا تھا ، اس کا ہم نے اپنے طریقے سے جواب دیا تھا کہ ناپاک لوگ ناپاکی سے نہیں نکل سکتے ہیں، اسی کااظہار وثبوت یہ تبصرہ ہے، ہندوتوادیوں کے حلقے میں ایک بھی ایماندار اور دیانت دار تحقیق کار نہیں ہے، جو سچ تک رسائی کا نیک جذبہ رکھتا ہو وہ یک طرفہ طورپر تاریخ کے نام پر جھوٹ اور فرقہ وارانہ غلاظت پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں، یتی نرسنہا نند جیسے لوگ ایک جگہ سے گندگی لے کر کچھ بڑھا کر دوسری جگہ پہنچاتے رہتے ہیں، فرانسیسی ڈاکٹر برنیئر جو مشرقی تہذیب و تمدن سے نا آشنا و نابلد تھا نے مسلم حکمرانوں، علما اور سماج کو بدنام و داغدار کرنے کے لیے اپنے سفرنامے میں کچھ من گھڑت اور خود ساختہ باتوں اور گپوں کو بھی شامل کردیا ہے ان میں سے شاجہاںاور جہاں آرا کے باپ بیٹی کے مقدس تعلقات کو مکروہ رنگ میں پیش کرنے کا معاملہ بھی ہے، سفرنامے کا مختلف زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں، اس میں ڈاکٹر برنیئر نے لکھا ہے’’جہاں آرا نہایت قبول صورت اور نازک اندام تھی، اس کا باپ اس کو دل و جان سے چاہتا تھا ، کہتے ہیں کہ یہ چاہت اس درجے کو پہنچ گئی تھی جسے تسلیم کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ شاہ جہاں نے ایک دفعہ ملاو ¿ں سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص اس درخت سے پھل کھا سکتا ہے جو اس نے اپنے ہاتھو ںسے بویا ہو، ملاوں کو بادشاہ کی خواہش کے خلاف فیصلہ صادر کرنا مشکل ہوگیا اور انھوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملادی ‘‘
ظاہرہے کہ یہ سراسر ذہنی عیاشی اور ضمیر کشی ہے، اس دور کی تمام تحریریں اس طرح کے لغویات اوربیہودہ باتوں سے خالی ہیں، اس لغویات کی کارٹواور نیکولاس منوجی جیسے مغربی یورپی مورخین لغو بے بنیاد قرار دے کر واضح طورسے تغلیظ و تردید کی ہے۔
’’کارٹو نے لکھا ہے کہ جہاں آرا ایک طرف حسین اور صاحب جمال تھی تو دوسری طرف اعلیٰ درجے کی روشن دماغ بھی تھی، وہ لگاو جو اس کو اپنے باپ سے تھا وہ پیار جوباپ کو اپنی بیٹی سے تھا اس سے عام لوگ دھوکہ کھاجاتے ہیں،اور یہ عام افواہ ہے مگر بالکل بے بنیاد ،بے سروپا اور لایعنی‘‘
منوجی نے لکھا ہے کہ جہاں آرا نے اپنی تمام عقل و دانش بادشاہ کو خوش کرنے میں وقف کردی تھی اور وہ ہمیشہ بڑی محبت اورچاہت سے بادشاہ کی خدمت میں سرگرم رہتی تھی ، اس کے متعلق کچھ افواہ پھیلادی گئی تھی اور اسی افواہ نے برنئیر کو شہزادی کے متعلق ایسا لکھنے کا موقع دیا ، لہذا میں یہاں لکھنے پر مجبور ہوںکہ اس نے جو کچھ لکھا ہے وہ بالکل لغو اور غلط ہے اس سلسلے میں پروفیسر علم الدین سالک نے’’دختران ہند‘‘ میں بہت مدلل بحث کرکے ڈاکٹر برنئیر جیسے لوگوںکوپوری طرح بے نقاب کردیا ہے۔ بڑی حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ مشرق کے بھی کورے مقلداپنی غلاظت پسند ی کی وجہ سے ، مسلم دشمنی میں بے ہود ہ سے بے ہودہ باتوں کو قبول کرکے آگے بڑھادیتے ہیں، لیکن ظاہرہے کہ ذہنی آوارگی کو تاریخ قرار نہیں دیا جاسکتا۔