تحریر:تسنیم فرزانہ
کسی بھی ملک اور ریاست میں اقلیتوں کا تحفظ اور ان کی شناخت کی حفاظت کرنا ریاست اور ملک کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ خواہ وہ مذہبی اقلیت ہوں یا لسانی اقلیت، انھیں مکمل حقوق فراہم کرنا اور ہر طرح کی آزادی دینا لازمی ہے ۔
اقلیت کے معنی کیا ہیں ؟
فرانسسکو کیپوٹرٹی نے اقلیت کی جامع تعریف کی ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ’’ایسا گروہ جو کسی ریاست میں اس کی کل آبادی کی نسبت عددی طور پر کم تر ہو، غیر غلبہ کی پوزیشن میں ہو جس کے افراد ریاست کے شہری ہوتے ہوئے باقی آبادی کی نسبت مختلف نسلی مذہبی یا لسانی خصوصیات رکھتے ہوں اور صرف اپنی ثقافت، روایات، مذہب یا زبان کے لیے یکجہتی ظاہر کریں۔‘‘
معروف امریکی مصنف جوئل آر پروس اقلیت کی جداگانہ حیثیت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’ اقلیتی گروہ کی جداگانہ حیثیت سے مراد یہ ہے کہ معاشرے میں اس گروہ کے غلبے کی کمی ہو ۔ضروری نہیں کہ اس گروہ کی حیثیت کل آبادی کے نصف سے بھی کم ہو۔‘‘
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 18دسمبر 1992 کو ’’اقلیتوں کے حقوق کا دن‘‘ک اعلان کیا تھا ۔ اقوام متحدہ کی نظر میں اقلیتیں کسی بھی علاقے میں رہنے والے ایسے افراد ہیں جن کی تعداد کسی دوسرے طبقے سے کم ہے، خواہ یہ مذہبی ہو، صنفی ہو، لسانی ہو یا نسلی اگر وہ قوم کی تعمیر، ترقی، اتحاد، ثقافت، روایت اور قومی زبان کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہوں تو اس قوم میں اس طرح کی برادریوں کو اقلیت سمجھا جاتا ہے ۔
اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ ممالک کو اقلیتوں کی ثقافت و تہذیب وغیرہ کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ ان کا وجود خطرہ میں نہ آئے اور ان کا تشخص باقی رکھنے کے لیے تمام امکانات کو فروغ دیا جائے ۔بھارت میں بھی مختلف اقلیتیں ہمیشہ سے رہتی آئی ہیں۔
وزرات برائے اقلیتی امور (نیشنل مائنارٹی کمیشن) نے بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، بدھسٹ،پارسی اور جین کو اقلیت قرار دیا ہے ۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں مسلم اقلیتوں کی تعداد2.14فیصدعیسائی 2.3فیصد سکھ 1.7فیصد اور بدھ مت کےماننے والے 0.7 فیصد ہیں۔‘‘
آئین ہند میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے دفعات موجود ہیں، ملک کا آئین ہر فرد کو بلا امتیاز جنس مذہب، نسل، ذات اور زبان کے یکساں حقوق و مواقع فراہم کرتا ہے، یہ بنیادی حقوق ملک کے ہر شہری کو حاصل ہیں اور انھیں کسی بھ طرح چھینا نہیں جا سکتا ۔ ایک سیکولر ملک ہونے کی وجہ سے یہاں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے اور نہ کسی اکثریت کے مذہب کو ریاست کا مذہب قرار دیا جاتا ہے، ملک کا ہر شہری چاہے وہ اکثریتی طبقے سے ہو یا اقلیتی طبقے سے، ملک کا مساوی شہری ہے، مذہب یا زبان پر کوئی شہری دوسرے یا تیسرے درجے کا نہیں بلکہ سب اول درجے کے شہری ہیں ۔
آئین میں دفعات 29اور 30کے تحت تعلیمی حقوق کے لیے اقلیتوں کی ترقی اور ان کی زبان و ثقافت کے تحفظ کے لیے خصوصی دفعات ہیں، ان کے علاوہ بھی کچھ خصوصی دفعات ہیں جن میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت دی گئی ہے۔
مثلاً :دفعہ 16اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ سرکاری ملازمت میں نسل، مذہب، ذات اور زبان کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کر سکتے۔مطلب ہر شہری بلا امتیاز سرکاری دفاتر میں ملازمت کا مساوی حق رکھتا ہے ۔
دفعہ25:ہر شخص کو مذہبی آزادی کا حق دیتی ہے، اقلیتیں صرف اپنے مذہب پر چلنے کا حق ہی نہیں رکھتیں، بلکہ وہ اس کی بلا جبر و تشدد تبلیغ بھی کر سکتی ہیں، کیوں کہ جبر و تشدد فرد کی آزادی کو چھیننے کا باعث ہیں۔
دفعہ 29:اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں ذات پات زبان مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی جا سکتی ہے۔
دفعہ 30:اقلیتوں کے حقوق کا ایک بڑا ہی کار آمد ذریعہ ہے، اس میں تمام اقلیتوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنی پسند کا تعلیمی ادارہ قائم کر کے اس کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھ میں رکھ سکتے ہیں اور سرکاری امداد دینے میں حکومت کوئی تفریق نہیں کر سکتی ہے ۔
بھارت میں اقلیتوں کے تحفظ اور پاسداری لیے بہت سارے ادارے قائم ہیں اور قوانین بھی ہیں لیکن عملی طور پر ان دفعات کا نفاذ ہو نہیں پاتا۔ خاص طور پر پچھلے چند سالوں میں اقلیتوں کے خلاف حملے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں، ان کی عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے، سرکار بھی اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کرنے میں ناکام نظر آتی ہے، جس کی وجہ سے انھیں مختلف سطحوں پر تعصب، امتیازی سلوک اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے مذہبی حقوق اور ان کی شناخت بار بار مجروح ہوتی ہے ۔
اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے جو ادارے موجود ہیں انھیں سرکاری دباؤ میں کام کرنا پڑتا ہے اور وہ اقلیتوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
ماہرین سوال کرتے ہیں کہ کیا واقعی اقلیتوں کو وہ حقوق حاصل ہیں جو آئین نے انھیں دئے ہیں؟ انسانی حقوق کے ایک غیر سرکاری فورم فار ہیومن رائٹس کے سیکرٹری جنرل تپن بوس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آئین نے تو حقوق دیے ہیں لیکن حکومتیں آئین کے مطابق عمل نہیں کرتیں۔
ان کے بقول مسلمانوں اور عیسائیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے خواہ وہ بیف کے نام پر ہو یا اب لَو جہاد کے نام پر۔ ان کا کہنا ہے کہ 2014 کے بعد سے یہ سلسلہ چل پڑا کہ مسلمانو ں کے گھروں میں گھس کر یہ دیکھا جانے لگا ہے کہ کہیں وہ بیف تو نہیں کھا رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ آج بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو، تہذیب و ثقافت اور مذہب سب خطرے میں ہیں۔
انھوں نے سی اے اے اور اترپردیش کے ’’لو جہاد‘‘ مخالف قانون کو آئین کے منافی قرار دیا اور کہا کہ آج اپنی مرضی سے مذہب بدلنے اور شادی کرنے کا حق چھینا جا رہا ہے۔دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان ن کہا کہ موجودہ حکومت اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کو ان کے آئینی و مذہبی حقوق دینا نہیں چاہتی۔
انسانی حقوق کے ایک سینئر کارکن اویس سلطان خان نے کہا کہ اگر اقلیتیں ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں تو ان کی آواز دبا دی جاتی ہے۔
اسلام ان تمام حقوق میں،جو کسی مذہبی فریضہ اور عبادت سے متعلق نہ ہوں، بلکہ ان کا تعلق ریاست کے نظم و ضبط اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے ہو غیرمسلم اقلیتوں اور مسلمانوں کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں ان غیرمسلموں کے ساتھ، جو اسلام اور مسلمانوں سے برسرپیکار نہ ہوں اور نہ ان کے خلاف کسی شازشی سرگرمی میں مبتلا ہوں، خیرخواہی، مروت، حسن سلوک اور رواداری کی ہدایت دی گئی ہے۔
لاینہٰکم اللّٰہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین، ولم یخرجوکم من دیارکم أن تبروہم وتقسطوا الیہم (الممتحنة:08)
’’اللہ تم کو منع نہیں کرتا ہے ان لوگوں سے جو لڑے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمھارے گھروں سے کہ ان سے کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک ۔‘‘
معاشرے میں تمام غیرمسلم اقلیتوں اور رعایا کو عقیدہ، مذہب، جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت حاصل ہوگی۔ وہ انسانی بنیاد پر شہری آزادی اور بنیادی حقوق میں مسلمانوں کے برابر کے شریک ہوں گے۔ قانون کی نظر میں سب کے ساتھ یکساں معاملہ کیا جائے گا، بحیثیت انسان کسی کے ساتھ کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ جزیہ قبول کرنے کے بعد ان پر وہی واجبات اور ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو مسلمانوں پر عائد ہیں، انھیں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں اور ان تمام مراعات و سہولیات کے مستحق ہوں گے، جن کے مسلمان ہیں۔
’’فان قبلوا الذمة فأعْلِمْہم أن لہم ما للمسلمین وعلیہم ما علی المسلمین‘‘ (بدائع الصنائع، ج:۶، ص: ۶۲)
اگر وہ ذمہ قبول کرلیں، تو انھیں بتادو کہ جو حقوق و مراعات مسلمانوں کو حاصل ہیں، وہی ان کو بھی حاصل ہوں گی اور جو ذمہ داریاں مسلمانوں پر عائد ہیں وہی ان پر بھی عائد ہوں گی۔
تحفظ جان:
جان کے تحفظ میں ایک مسلم اور غیرمسلم دونوں برابر ہیں دونوں کی جان کا یکساں تحفظ و احترام کیا جائے گا اسلامی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی غیرمسلم رعایا کی جان کا تحفظ کرے اور انھیں ظلم و زیادتی سے محفوظ رکھے۔ پیغمبرؐ کا ارشاد ہے:
’’من قتل معاہدًا لم یرح رائحة الجنة، وان ریحہا لیوجد من مسیرة أربعین عامًا‘‘
(بخاری شریف کتاب الجہاد، باب اثم من قتل معاہدًا بغیر جرمِ، ج:۱، ص:۴۴۸)
جو کسی معاہد کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، جب کہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔
تحفظ مال:
ریاست مسلمانوں کی طرح ذمیوں کے مال وجائیداد کا تحفظ کرے گی، انھیں حق ملکیت سے بے دخل کرے گی نہ ان کی زمینوں اور جائیدادوں پر زبردستی قبضہ، حتیٰ کہ اگر وہ جزیہ نہ دیں، تو اس کے عوض بھی ان کی املاک کو نیلام وغیرہ نہی کرے گی ۔
تحفظِ عزت و آبرو:
مسلمانوں کی طرح ذمیوں کی عزت وآبرو اور عصمت و عفت کا تحفظ کیاجائے گا، ریاست کے کسی شہری کی توہین و تذلیل نہیں کی جائے گی۔ ایک ذمی کی عزت پر حملہ کرنا، اس کی غیبت کرنا، اس کی ذاتی و شخصی زندگی کا تجسس، اس کے راز کو ٹوہنا،اسے مارنا، پیٹنا اور گالی دینا ایسے ہی ناجائز اور حرام ہے، جس طرح ایک مسلمان کے حق میں۔
’’ویجب کف الأذی عنہ، وتحرم غیبتہ کالمسلم‘‘(۴)
اس کو تکلیف دینے سے رکنا واجب ہے اوراس کی غیبت ایسی ہی حرام ہے جیسی کسی مسلمان کی۔
عدالتی و قانونی تحفظ:
فوج داری اور دیوانی قانون ومقدمات مسلم اور ذمی دونوں کے لیے یکساں اور مساوی ہیں، جو تعزیرات اور سزائیں مسلمانوں کے لیے ہیں، وہی غیرمسلموں کے لیے بھی ہیں۔ چوری، زنا اور تہمتِ زنا میں دونوں کو ایک ہی سزا دی جائے گی، ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ قصاص، دیت اور ضمان میں بھی دونوں برابر ہیں۔ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو قتل کردے، تواس کو قصاص میں قتل کیاجائے گا۔ حدیث شریف میں ہے:
ذمیوں کو اعتقادات و عبادات اور مذہبی مراسم وشعائر میں مکمل آزادی حاصل ہوگی، ان کے اعتقاد اور مذہبی معاملات سے تعرض نہیں کیا جائے گا، ان کے کنائس، گرجوں، مندروں اور عبادت گاہوں کو منہدم نہیں کیا جائے گا۔
قرآن نے صاف صاف کہہ دیا:
لا اکراہ في الدین قد تبین الرشد من الغي (البقرہ)
دین کے معاملہ میں کوئی جبر واکراہ نہیں ہے، ہدایت گمراہی سے جدا ہوگئی۔
وہ بستیاں جو امصار المسلمین (اسلامی شہروں) میں داخل نہیں ہیں، ان میں ذمیوں کو صلیب نکالنے، ناقوس اور گھنٹے بجانے اور مذہبی جلوس نکالنے کی آزادی ہوگی، اگر ان کی عبادت گاہیں ٹوٹ پھوٹ جائیں، تو ان کی مرمت اور ان کی جگہوں پر نئی عبادت گاہیں بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ امصار المسلمین یعنی ان شہروں میں، جو جمعہ عیدین، اقامت حدود اور مذہبی شعائر کی ادائیگی کے لیے مخصوص ہیں، انھیں کھلے عام مذہبی شعائر ادا کرنے اور دینی و قومی جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اور نہ وہ ان جگہوں میں نئی عبادت گاہیں تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ عبادت گاہوں کے اندر انھیں مکمل آزادی حاصل ہوگی اور عبادت گاہوں کی مرمت بھی کرسکتے ہیں۔ وہ فسق و فجور جس کی حرمت کے اہل ذمہ خود قائل ہیں اور جو ان کے دین و دھرم میں حرام ہیں، تو ان کے اعلانیہ ارتکاب سے انھیں روکا جائے گا۔ خواہ وہ امصار المسلمین میں ہوں یا اپنے امصار میں ہوں۔
دوسری اقوام اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مذہبی درسگاہیں بھی قائم کرسکتے ہیں۔ انھیں اپنے دین و مذہب کی تعلیم و تبلیغ اور مثبت انداز میں خوبیاں بیان کرنے کی بھی آزادی ہوگی۔
اسلامی طرز معاشرت ذمیوں کے پرسنل لاء میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی، بلکہ انھیں ان کے مذہب و اعتقاد پر چھوڑ دے گی وہ جس طرح چاہیں اپنے دین و مذہب پر عمل کریں۔ نکاح، طلاق، وصیت، ہبہ، نان و نفقہ، عدت اور وراثت کے جو طریقے ان کے دھرم میں جائز ہیں، انھیں ان پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔ مثلاً اگر ان کے یہاں محرمات سے نکاح بغیر گواہ اور مہر کے جائز ہے، تو اسلامی ریاست انھیں اس سے نہیں روکے گی، بلکہ اسلامی عدالت ان کے قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرے گی۔
اسلامی خزانے سے غیرمسلم محتاجوں کی امداد
صدقات واجبہ (مثلاً زکوٰۃ عشر) کے علاوہ بیت المال کے محاصل کا تعلق جس طرح مسلمانوں کی ضروریات و حاجات سے ہے، اسی طرح غیرمسلم ذمیوں کی ضروریات و حاجات سے بھی ہے، ان کے فقراء ومساکین اور دوسرے ضرورت مندوں کے لیے اسلام بغیر کسی تفریق کے وظائف معاش کا سلسلہ قائم کرتا ہے۔ خلیفہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اسلامی ریاست کا کوئی شہری محروم المعیشت نہ رہے۔
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے گشت کے دوران میں ایک دروازے پر ایک ضعیف العمر نابینا کو دیکھا آپ رضی اللہ عنہ نے اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ تم اہل کتاب کے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہو،اس نے جواب دیا کہ میں یہودی ہوں۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ گداگری کی یہ نوبت کیسے آئی۔ یہودی نے کہا:ادائے جزیہ، شکم پروری اور پیری سہ گونہ مصائب کی وجہ سے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر اس کا ہاتھ پکڑ کر گھرلائے اور جو موجودتھا،اس کو دیا اور بیت المال کے خازن کو لکھا:
’’یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو۔ خدا کی قسم ہرگز یہ ہمارا انصاف نہیں ہے کہ ہم جوانی میں ان سے جزیہ وصول کریں اور بڑھاپے میں انھیں بھیک کی ذلت کے لیے چھوڑ دیں قرآن کریم کی اس آیت (انما الصدقات للفقراء والمساکین) میں میرے نزدیک فقرا سے مسلمان مراد ہیں اور مساکین سے اہل کتاب کے فقرا اور غربا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے تمام لوگوں سے جزیہ معاف کرکے بیت المال سے وظیفہ بھی مقرر کردیا۔‘‘
معاہدین کے حقوق
مذکورہ بالا حقوق میں تمام اہل ذمہ شریک ہیں، البتہ وہ غیرمسلم رعایا، جو جنگ کے بغیر، یا دوران جنگ مغلوب ہونے سے پہلے،کسی معاہدے یا صلح نامے کے ذریعہ اسلامی ریاست کے شہری ہوگئے ہوں تو ان کے ساتھ شرائط صلح کے مطابق معاملہ کیا جائے گا۔ ان شرائط پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔ ان سے ایک سرمو بھی تجاوز نہیں کیا جائے گا، نہ ان پر کسی قسم کی زیادتی کی جائے گی، نہ ان کے حقوق میں کمی کی جائے گی۔ نہ ان کی مذہبی آزادی سلب کی جائے گی، نہ ان پر طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا جائے گا۔
معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے کو آخرت میں باز پرس کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا اور رسول اللہؐاس کے خلاف قیامت کے دن مستغیث ہوں گے۔
’’ألا من ظلم معاہدًا، أو انتقصہ، أو خلفہ فوق طاقتہ أو أخذ منہ شیئًا بغیر طیب نفس، فأنا حجیجہ یوم القیامة‘‘
خبردار! جو شخص کسی معاہد پر ظلم کرے گا، یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا، یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے گا، یا اس سے کوئی چیزاس کی مرضی کے خلاف وصول کرے گا،اس کے خلاف قیامت کے دن میں خود مستغیث بنوں گا۔
دین رحمت نے زندگی کے ہر پہلو میں انسانوں کی بہترین رہنمائی کی ہے اگر سارے انسان ان رہنما اصولوں کو اپنا کر شاہراہ حیات کا سفر طے کریں اور آپس میں ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی احسن انداز میں کریں گے تو دنیا میں عدل و انصاف قائم ہوگا اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنے گا ۔
یہ انسانی حقوق میں سب سے پہلا اور بنیادی حق ہے۔ اس لیے کہ جان سے زیادہ کوئی شے قیمتی نہیں ہے۔ اسی کے گرد زندگی کی سرگرمیاں گھومتی ہیں۔ دور رسالت سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں تھی۔سب سے پہلے محمد عربیؐ نے ان وحشی درندوں کو انسانی جان و مال کا احترام سکھایا اور ایک جان کے قتل کو ساری انسانیت کاقتل قرار دیا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)