تحریر:انل سنہا
روم میں وزیر اعظم نریندر مودی کا ہندوستانی عوام کی جانب سے استقبال کاپروگرام جس طرح منعقد کیاگیا وہ ہماری شناخت کے لائق نہیں تھا۔ پیزا گاندھی (گاندھی اسکوائر) پر استقبال کے لیے آئی چھوٹی سے بھیڑ نے صرف اس ’ مودی -مودی ‘ کے نعرے لگائی جس کی گونج اب ماند پڑنے لگی ہے بلکہ وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں بھی نعرے لگے اورجے شری رام بھی کہا گیا۔ کسی خاتون نے شیو تانڈو کا پاٹھ کیا اورمودی نے بھی اس کے ساتھ اوم نما : شیوایا کا منتر پڑھ کر اپنی ہندوتوا شناخت کا کھولے طور پر اظہار کیا۔ بعد میں وہ بھارتیہ برادری سے ملنے کے نام پر سناتن دھرم سنگھا کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی ۔
ہمیں یہ سب معصومانہ محسوس ہوتا ہے کیونکہ ہم ان باتوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس واقعے کا سب سےخراب پہلو یہ ہے کہ یہ سب گاندھی جی کی مورتی کے سامنے ہوا جو تمام مذاہب میں ایک ساتھ اپنےعقیدے کااظہار کرتے تھے اور ممکنہ دنیا کے پہلے لیڈر تھے جنہوں نے اس کے اظہار کا منفرد طریقہ ڈھونڈ نکالا تھا اور ایسی دعائیہ تقریب کرتے تھے جس میں تمام مذاہب کے مقدس کتابوں کے کچھ حصے پڑھےجاتے تھے ۔ آزادی کے بعد ہماری قومی شناخت کو کسی ایک مذہب سے الگ رکھنے میں اس کوشش نے اہم رول ادا کیا ہے ۔ یہ ہمارے سیکولر ثقافتی رویے کا حصہ بن چکاہے ۔
وزیر اعظم کے پروگرام جس طرح بنائے جاتے ہیں، اس کی بنیاد پر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ سب پےلے سے طے تھا اور استقبال کے لیے آنے والے لوگوں کا پس منظر اور ان کے پروگرام کاہندوستانی سفارت خانے کو پہلے سے علم تھا ۔ پروگرام کو حتمی منظوری بھی وزیر اعظم دفتر سے ہی ملی ہوگی۔ یہی نہیں سناتن دھرم سنگھ سے ملاقات کے مقام پر لگے بھارت کی آزادی کے امرت مہوتسو والے بینر سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب سرکار کی جانب سے انعقاد کیا گیا تھا ۔
وزیر اعظم ملک کے اندر ہی نہیں ملک کے باہر بھی بھارت کی ہندوتوا شناخت بنانا چاہتے ہیں۔ وہ اگر چاہتے تو گاندھی پیزا میں بابائے قوم کو پھول چڑھانے کے پروگرام کو تمام مذاہب کو ساتھ لے کر چلنے کے ہندوستانی ثقافت کو دنیا کے سامنے رکھنے والے پروگرام میں بدل سکتے تھے ۔ اس کے برعکس انہوںنے اسے ہندوتو شناخت دکھانے کا پروگرام بنا دیا ۔ تقریب کو گاندھی جی کی شخصیت اور ہندوستان کے تشخص کے مطابق بنانے کے لیے زیادہ ضرورت بھی نہیں تھی۔ وہ صرف ایک ہمہ گیر دعائیہ تقریب کا اہتمام کر سکتے تھے۔
وزیر اعظم نے اپنے پہلے غیر ملکی دوروں کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اپنا امیج بنانے کے لیے۔ اس میں انہوں نے اس دیرینہ روایت کو بھی توڑا ہے جس میں بیرونی سرزمین پر اندرونی سیاست کی بحث سے گریز کیا گیا ہے۔ انہیں انتخابی مہم میں اپنے دورے کا استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں ہے۔
مودی کے گزشتہ کئی غیر ملکی دوروں میں یہ بات بھی نظر آتی ہے کہ وہ انہیں ہندوتوا کے کھلے پروپیگنڈے کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں اور اسے آر ایس ایس کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ کوشش گزشتہ ماہ ان کے دورہ امریکہ کے دوران واضح طور پر نظر آئی۔
ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور جمہوری حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات نے نائب صدر کملا ہیرس کویہ موقع دیا کہ انہوںنے جمہوریت پر بڑھتے خطرات کو لے کر انہیں انتباہ دیا۔ لیکن اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ضد میں مودی نے جمہوریت اور سیکولرزم میں اپنے پختہ یقین کا اظہار کرنے اور گاندھی-نہرو کی قیادت میں بنائے گئے ایک سیکولر اور جمہوری ہندوستان کو پیش کرنے کے بجائے پنڈت دین دیال اپادھیائے کو اپنا الہام کا ذریعہ قرار دیا۔ انہوں نے ہندوتوا کو ترجیح دی۔
مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات کے دوران مودی نے اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی اور بنگلہ دیش کے اپنے دورے کے دوران، متوا برادری کو اپنی طرف متوجہ کرانے کی کوشش کرتے ہوئے، ہندوستان کے سفارتی مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری کو بھول گئے۔ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کی ہندوتوا مہم کا بنگلہ دیش کے ساتھ ہمارے حساس تعلقات پر کیا اثر پڑے گا۔
یورپ اور امریکہ کےمقابلے بنگلہ دیش اور دیگر پڑوسی ممالک سے ہمارے سفارتی تعلقات زیادہ اہم ہیں۔ بنگلہ دیش کا قیام برصغیر کی تاریخ کاایک انتہائی اہم واقعہ ہے ۔ اس نے مذہب کی بنیاد ھر قوم کی تعمیر کے اصول کو مسترد کردیا جو استعماری مفادات کے تحفظ کے لیے وضح کیاگیاتھا۔ یہ یاد کرنا دلچسپ ہوگا کہ یہ غیر منقسم ہندوستان کے بنگال میں ہی مسلم لیگ نے جنم لیا تھا اور یہ ایک طویل عرصے تک لیگ کا بنیادی مرکز رہی۔ بنگال میں پھیلی مسلم فرقہ واریت نے قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کے موجودہ حصے، پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبے، سندھ اور بلوچستان میں مسلم لیگ کبھی طاقتور نہیں تھی۔ بنگال کا فرقہ وارانہ جنون ملک کو تیزی سے تقسیم کی طرف لے گیا۔
لیکن بنگلہ دیش کا جنم اس سے نکلنے کی ایک انوکھی کہانی ہے۔ وہاں کے لوگوں نے زبان اور ملی جلی ثقافت کی بنیاد پر ایک قوم بنائی۔ یہ ایک تاریخ کو پلٹنے والا واقعہ ہے جس نے لاکھوں جانیں لی ہیں اور کروڑوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اس کردار کو نبھانے میں اسے کیا کچھ جھیلنا پڑا۔ شیخ مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کو اپنی جانوں سے قیمت چکانی پڑی۔ آج بھی شیخ حسینہ کو بنیاد پرستوں کا سامنا ہے۔ مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیاں ان کی مدد کرنے کے بجائے ان کا کام مشکل بنا دیتی ہیں۔ انہوں نے بنگلہ دیشی ہونے کو ہندوستان میں زیادتی کا نشانہ بنا دیا ہے۔ غیر قانونی طور پر آنے والوں کے نام لے کر پوری قوم کو بدنام کیا گیا ہے۔ آر ایس ایس نہ صرف اپنے تنگ سیاسی مفادات کے لیے ملک کو پولرائز کرتا ہے بلکہ پڑوسی ملک کی سرزمین میں اسے بڑھانے میں بھی مدد کرتا ہے۔ تریپورہ میں تشدد کا مقصد بنگلہ دیش میں پولرائزیشن کو بڑھانا بھی ہے۔ آر ایس ایس سے منسلک تنظیم وشو ہندو پریشد پوری قوت کے ساتھ اس کام میں لگی ہوئی ہے۔
آر ایس ایس نے شناخت کے بحران کا سامنا کرنے والے بیرون ملک رہنے والے ہندوستانیوں کی ثقافتی عدم تحفظ کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اس میں اسے یورپ امریکہ کے ان تاجروں کی مدد بھی حاصل ہوتی ہے جن کے ہندوستان کے ساتھ کاروباری تعلقات ہیں۔ گجرات جیسی ریاستوں سے باہر جانے والے بہت سے لوگ ریاست کی فرقہ وارانہ سیاست کو نکال کر ہندوتوا کے فروغ میں لگے ہوئے ہیں۔ وشو ہندو پریشد بیرون ملک میں کافی سرگرم ہے۔
لیکن وزیر اعظم سے پارٹی مفادات سے بالاتر ہونے کی توقع کی جانی چاہیے۔ غیر ملکی سرزمین پر ملک کے سیکولر تشخص کو مٹا کر اپنی سیاست چمکانے کے باوجود ہندوستان کو بہت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بنیاد پرست قوتوں کے زیر اثر پاکستان کے خلاف ہمارا سب سے بڑا ہتھیار سیکولرازم ہے۔
انہیں اپنے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے غیر ملکی دوروں کی ویڈیوز دیکھنی چاہئیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ تارکین وطن سے نہیں ملے، لیکن انہوں نے ان واقعات کے وقار کو گرنے نہیں دیا۔ انہوں نے اسے کبھی بھی کانگریس کے سیاسی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ نہیں بنایا۔ سیلف پروموشن ان کی شخصیت کا حصہ نہیں تھا۔ اپنی قابلیت کی بنیاد پر انہیں اتنی عزت ملتی تھی کہ اس کی ضرورت ہی نہ تھی۔
وزیر اعظم نے اٹلی میں آباد ہندوستانیوں میں بھی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ اٹلی میں سکھوں کی ایک بڑی آبادی ہے اور ہندو تشخص کے آگے بڑھنے سے ان کی مجموعی ہندوستانی شناخت ٹوٹ گئی ہے۔ انہیں ہندوتوا اور سفارتکاری میں فرق کرنا سیکھنا ہوگا، ورنہ وہ ہمارے سفارتی مفادات کو بہت نقصان پہنچائے گا۔
(بشکریہ: نیوز کلک،یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)