‘ون نیشن ون الیکشن’ کی تجویز کو مودی کابینہ سے منظوری مل گئی ہے اور اسے سرمائی اجلاس میں پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ واضح ہو کہ کووند کمیٹی نے اس پر رپورٹ دی ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ سابق صدر رام ناتھ کووند کی قیادت والی کمیٹی نے مارچ میں ون نیشن ون الیکشن کے امکانات پر اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں دی گئی تجاویز کے مطابق پہلے قدم کے طور پر لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں۔ کمیٹی نے مزید سفارش کی ہے کہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلی انتخابات کے بیک وقت انعقاد کے 100 دنوں کے اندر بلدیاتی انتخابات بھی کرائے جائیں۔ اس سے پورے ملک میں ہر سطح پر ایک مقررہ مدت میں انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔ اس وقت ریاستی اسمبلیوں اور لوک سبھا کے انتخابات الگ الگ ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی ایک طویل عرصے سے ون نیشن ون الیکشن کی وکالت کر رہے ہیں۔ پی ایم مودی نے کہا تھا، ‘میں سب سے درخواست کرتا ہوں کہ ایک ملک، ایک انتخاب کے عزم کو حاصل کرنے کے لیے ایک ساتھ آئیں، جو کہ وقت کی ضرورت ہے۔لوک سبھا انتخابات سے پہلے آج تک سے خصوصی بات چیت میں پی ایم مودی نے اس معاملے پر کہا تھا کہ حکومتوں کے پورے پانچ سالہ دور میں انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا تھا، ‘میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ انتخابات صرف تین یا چار ماہ کے لیے ہونے چاہئیں۔ پورے 5 سال سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ اس سے انتخابات کے انتظام پر ہونے والے اخراجات میں کمی آئے گی۔
*15 سیاسی جماعتوں کا احتجاج، 32 کی حمایت
سابق صدر رام ناتھ کووند کی قیادت والی کمیٹی نے 62 سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا تھا۔ ان میں سے 32 نے ایک ملک، ایک الیکشن کی حمایت کی تھی۔ جبکہ 15 جماعتیں اس کے خلاف تھیں۔ 15 جماعتیں تھیں جنہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
،ون نیشن ون الیکشن ،الیکشن کے لیے سب سے پہلے حکومت کو بل لانا ہوگا۔ چونکہ یہ بل آئین میں ترمیم کریں گے، اس لیے انہیں پارلیمنٹ کے دو تہائی ارکان کی حمایت حاصل ہونے پر ہی منظور کیا جائے گا۔ یعنی اس بل کو لوک سبھا میں پاس کرنے کے لیے کم از کم 362 ممبران اور راجیہ سبھا میں 163 ممبران کی حمایت درکار ہوگی، پارلیمنٹ سے پاس ہونے کے بعد اس بل کو کم از کم قانون ساز اسمبلی کی منظوری بھی درکار ہوگی۔ 15 ریاستیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بل کو 15 ریاستوں کی قانون ساز اسمبلی سے بھی پاس کروانا ضروری ہے۔ اس کے بعد یہ بل صدر کے دستخط کے بعد ہی قانون بن جائیں گے۔