جمع وکشمیر کی باگ ڈور جلد سنبھالنے والے عمر عبداللہ نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہُ میں نے ہمیشہ کہا ہے، پچھلے پانچ سالوں سے میں کہتا آیا ہوں کہ یہ امید کرنا کہ جن لوگوں نے ہم سے آرٹیکل 370 چھینا، وہ لوگ ہمیں اسے واپس دے دیں گے یہ تو بیوقوفی ہے۔‘
’ملک میں کبھی نہ کبھی تو حکومت بدلے گی، کبھی نہ کبھی تو ایک نئی حکومت آئے گی اور ایسی حکومت آئے گی جس کے ساتھ بیٹھ کر ہم کم سے کم بات کر پائیں گے۔‘
خیال رہے کہ وزیر اعظم مودی کی حکومت نے اگست 2019 میں انڈین آئین سے آرٹیکل 370 کا حذف کردیا تھا جس کے تحت کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔اس شق کے خاتمے کے بعد بھارت کے تمام مرکزی قوانین ریاستی اسمبلی کی منظوری کے بغیر کشمیر میں نافذ ہوگئے تھے۔
عمر عبداللہ ملک میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ ہمیشہ کے لیے تو اقتدار میں نہیں رہیں گے، یہ تو بی جے پی والے بھی مانتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے حکومت میں نہیں رہیں گے۔ کبھی نہ کبھی تو انھوں نے ہارنا ہوگا؟‘ بی جے پی نے جموں کے علاقے میں 29 نشستیں جیتی ہیں، جبکہ 90 اراکین پر مشتمل اسمبلی میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے پاس 48 نشستیں ہیں۔لیکن عمر عبداللہ کہتے ہیں کہ ’یہ وہ اسمبلی نہیں ہے جس کا ہمیں حق ہے، یہ عارضی اسمبلی ہے اور اس اسمبلی کے ذریعے ہم اس اسمبلی تک پہنچیں گے جس کا وعدہ ہم سے اس ملک کے وزیرِ اعظم نے ہمارے ساتھ کیا ہے۔‘
انھوں نے کہا ہے کہ ’جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس ملے گا اور ہم اس کے انتظار میں ہیں۔عمر عبداللہ نے مزید کہا کہ ’حکومت بننے کے بعد کابینہ کے پہلے اجلاس میں پہلی قرارداد یہی منظور ہونی چاہیے کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس ملے۔‘نیشنل کانفرنس برسوں سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور انڈیا کے درمیان مذاکرات کی حامی رہی ہے۔پاکستان میں رواں مہینے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا اجلاس منعقد ہوگا جس میں وزیرِ خارجہ ایس جےشنکر بھی شرکت کریں گے۔لیکن وہ واضح کرچکے ہیں کہ اس دورے کے دوران پاکستان اور بھارت کے تعلقات زیرِ گفتگو نہیں آئیں گے۔
عمر عبداللہ بی بی سی کو اس سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بات چیت نہیں ہوگی، لیکن (بھارتی وزیرِ خارجہ) پاکستان جا رہے ہیں۔ ایک چھوٹی شروعات ہے، کل تک وہ جانے کو بھی تیار نہیں تھے۔ یہ ایک چھوٹا ہی قدم سہی لیکن صحیح سمت کی جانب ہے۔‘