تحریر:شکیل رشید
آج تک ہماری مذہبی قیادت یہ احساس ہی نہیں کر سکی ہے کہ سیاست ، سیاست داں اور ملک میں بننے والی حکومتوں سے لاپروائی اور دوری ، ملک کے مسلمانوں کے لیے کس قدر مضر اور مہلک ثابت ہوئی اور ہو رہی ہے! میں کبھی کبھی سوچتا ہوںکہ ملک کی آزادی کے لیے ہمارے علمائے کرام نے جو قربانیاں دیں اور جن مصائب سے گزرے ،ان کے نتیجے میں اس ملک کے مسلمانوں کو کیا حاصل ہوا ؟
اس سوچ کی دو وجوہ ہیں ،ایک تو یہ کہ آزادی کے فوراً بعد ہماری وہ مذہبی قیادت جو مخلص تھی ،جسے اس ملک کے مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی فکر تھی اور جو اس ملک میں اسلام کا بول بالا دیکھنا چاہتی تھی ،اس نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی ،اور اصلاحِ معاشرہ کے کاموں میں لگ گئی ، نتیجتاً اس ملک کے مسلمان ،جو ویسے ہی تقسیم ملک کے مارے ہوئے تھے ،بے قیادت ہوگئے ۔
اوردوسری وجہ یہ کہ وہ مسلم قیادت جس میں مخلص کم تھے ،اس نے سیاست کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور ہر طرح سے مسلمانوں کا استحصال کیا اور استحصال کروایا ،نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ،اس ملک کا مسلمان دلتوں سے بھی بدتر حالت میں پہنچ چکا ہے۔ میں کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں کہ اگر حضرت شیخ الاسلام ؒاور دیگر علمائے کرام عملی سیاست میں اترتے تو آج اس ملک کے مسلمانوں کے حالات کیاہوتے ؟ کیا ان کی سماجی ،معاشی اور تعلیمی حالت قدرے بہتر نہ ہوتی؟
افسوس تو یہ ہے کہ بعد کے دنوں میں جن اکابر علماء نے سیاست میں حصہ لیا ،انہیں یا تو کام نہیں کرنے دیا گیا یا پھر خود انہوں نے کام نہیں کیا ،اور مسلمان جیسے آج ہیں ویسے ہی رہے ،ان کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی ۔ لیکن اب اس روش کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک مسلمان اس ملک کے اقتدار میں ساجھے داری حاصل نہیں کرے گا وہ مارا اور کاٹا جاتا رہے گا ،اورکوئی کچھ نہیں کر سکے گا۔ اقتدار میں ساجھے داری اور اعلیٰ تعلیم یہ دو راستے ہیں آگے بڑھنے کے ۔ ایک راستہ سیاست دانوں پر اثر انداز ہونا بھی ہے ،اثر انداز ہو کر ان سے اپنی بات منوانا بھی ہے اور اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان سے کچھ تعلقات بنائے جائیں ،رکھے جائیں ۔
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مفتی ابوالقاسم نے دو روز قبل یہ کہتے ہوئے ایم آئی ایم کے صدر ،ایم پی اسدالدین اویسی پر دارالعلوم کے دروازے بند کر دیے کہ ’’ الیکشن کے دور میں ادارے میں سیاسی رہنماؤں کی آمد کی اجازت نہیں ہے ۔‘‘ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ مفتی صاحب نے یہ بھی کہا کہ میں اویسی سے ملنا تک نہیں چاہتا ۔ چونکہ مجھے اس کی تحقیق نہیں ہے اس لیے میں اس پر کوئی بات نہیں کروں گا سوائے یہ کہنے کہ اگر مفتی صاحب نے ایسا کہا ہے تو انہیں نہیں کہنا چاہیے تھا کہ دارلعلوم کے کسی مہتمم کو زیبا نہیں دیتا۔ اور اگر نہیں کہا تو جو یہ بات ان سے منسوب کر رہے ہیں وہ جھوٹ پھیلانے کے مجرم ہیں ،جھوٹ کی سزا تو ملے گی ہی۔
ایک بات مہتمم صاحب نے یہ کہی کہ دارالعلوم کی یہی روایت ہے ۔ان کی یہ بات قابلِ قبول نہیں ہے کیونکہ دارالعلوم میں ملائم سنگھ یادو سے لے کر راہل گاندھی تک نہ جانے کتنے سیاسی لیڈر آ چکے ہیں ۔ہاں مفتی صاحب نے ضرور اپنے دور میں الیکشن کے ایام میں سیاسی رہنماؤں پر دارالعلوم کے دروازے بند کرنے کی ہدایت دی ہے ،لیکن ا س ہدایت کے باوجود الیکشن کے دنوں میں بھی سیاست داں دارالعلوم آتے رہے ہیں ۔اگر یہ پالیسی بنی بھی ہے تو الیکشن کے دنوں کے لیے ،اور ابھی الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا ہے ،جس روزالیکشن کا اعلان ہوگا اس روز سے اس پالیسی کی پابندی درست مانی جائے گی ۔ یہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے ،اس کے سبب مسلمانوں کے درمیان اختلاف بڑھے گا ،لوگ کہنے ہی لگے ہیں کہ اویسی ’ بریلوی‘ مسلک کے ہیں اس لیے مفتی صاحب نے ان سے ملنا گوارہ نہیں کیا ۔ ویسے مفتی صاحب اگر آر ایس ایس کے پرچارک و مسلم راشٹریہ منچ کے صدر اندریش کمار سے مل سکتے ہیں تو اویسی سے ملنے میں انہیں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے تھی ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)