مراد آباد :
اسپتال کے اندر زندگی پر کستا کورونا کا شکنجہ اسے کمزور کررہا ہے اور اسپتال کے باہر اس کی وجہ سے بنے حالات زندگی کو ختم کررہے ہیں۔ بیڈ کی امید میں 350 کلومیٹر دور مرادآباد پہنچے لکھنؤ کا رہائشی نے اسپتال کے گیٹ پر ہی ایمبولینس میں علاج کے دوران دم توڑ دیا۔
ریاست کے تمام شہروں میں اسپتال مکمل طور پر بھر چکے ہیں۔ مراد آباد میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہو تی جارہی ہے۔ عالم یہ ہے کہ ہر روز کورونا کے مریض اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ دیگر بیماریوں کی شکایات لے کر اسپتال آنے والے مریض بھی وقت پر بیڈ اور علاج کی عدم دستیابی کے سبب اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کورونا انفیکشن میں مبتلا مریضوں کے علاج کے لئے انتظامات کافی نہیں ہیں ، جس کی وجہ سے اموات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
اس سلسلے میں امر اُجالا کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے،جس میں بتایاگیا کہ کہیں بیڈ کے انتظار میں مریض وہیل چیئر پر نظر آئے تو کہیں فرش پر بے یارو مددگار ۔ شہر میں نو نجی اسپتالوں میں کورونا انفیکشن کے مریضوں کے علاج کا انتظام ہے۔ ضلع انتظامیہ نے یہاں مریضوں کی فیس بھی متعین کر دی ہے۔ ان اسپتالوں کے انتظامات کے لئے تحصیلداروں اور ایس ڈی ایم کو نوڈل آفیسر نامزد کیا گیا ہے ، لیکن آئی سی یو اور آئیسولیشن وارڈ فل ہونے کی وجہ سے سنگین مریض دم توڑ رہے ہیں۔
مانسروور کالونی رہائشی انمول گپتا کی 31 سالہ بیوی پونم کو معمولی بخار ہوا۔ جمعرات کی شام کو جب اسے سانس لینے میں تکلیف ہوئی تو وہ اپنی بیوی کولے کرپہلے ایپیکس گئے ، جہاں سے انہیں یہ کہہ کر لوٹا دیاگیا کہ کوئی بستر خالی نہیں ہے ، یہاں سے سائیں اسپتال لے گئے لیکن یہاں کوئی بیڈ نہیں ملا۔ حالت بگڑتی دیکھ کر اسے فوری طور پر ڈسٹرکٹ اسپتال لے کر پہنچے ، لیکن یہاں بھی علاج نہیں مل سکا اور رات 12 بجے دم توڑ گئی۔ دوسری طرف پونم کا چار سالہ معصوم بیٹا دکش کا رو رو کر برا حال ہے۔ وہ ممی کو ڈھونڈتا ہے اور اسے نہ پاکر بلکنے لگتا ہے یہ دیکھ کر پریوار والے بے حس ہوچکے ہیں۔
المیہ: وسیم شیخ لکھنؤ سے آکسیجن پر آئے،مرادآبادمیں چل بسے
لکھنؤ کے رہائشی 50 سالہ وسیم شیخ کی کورونا پازیٹیو رپورٹ آنے کے بعد اس کی حالت مزید خراب ہوگئی۔ ایک افسر نے بتایا کہ وسیم شیخ کو لکھنؤ میں وینٹی لیٹر نہیں ملا ، تب کسی نے بتایا کہ اس کا علاج مراد آباد میں ہو جائے گا۔ امیدوں کے ساتھ اس کے اہل خانہ آکسیجن لگا کر ایمبولینس سے مرادآباد لے آئے لیکن یہاں اسپتالوں میں بھی بیڈ فل ملے۔ اسی بیچ وہ برائٹ اسٹور اسپتال پہنچے ، وہاں بھی کوئی بیڈ خالی نہیں تھا، لیکن ڈاکٹر ان کا معائنہ کرنے کو راضی ہوگئے، اسپتال کے باہر ایمبولینس میں ہی ڈاکٹر ان کا طبی معائنہ کررہے تھے ،تبھی انہیں نے دم توڑ دیا۔
مریضوں کے حالات بتارہے ہیں طبی سہولیات کی حقیقت
کانشی رام کالونی کی رہائشی شانتی دیوی بخار اور سانس لینے میں دشواری کی وجہ سے جمعہ کے روز ضلع اسپتال آئی تھی ، لیکن ایک گھنٹے انتظار کے بعد بھی علاج نہیں مل سکا۔ اس سے وہ مایوس ہو کر فرش پر لیٹ گئی۔ وہیں کٹگھر رہائشی رام کشوری کو اس کنبے وہیل چیئر پر لے کر ضلع اسپتال پہنچے۔ اسے بھی سانس لینے میں دشواری تھی اور بخار بھی بتایا گیا ، لیکن کسی نے بھی ڈسٹرکٹ اسپتال میں ہاتھ نہیں لگایا۔ یہ جان کر کہ بیڈخالی نہیں ہے وہ دونوں کے تیماردار انہیں لے کر لوٹ گئے۔
مراد آباد میں آکسیجن ختم نہیں ہونے دیں گے: کمشنر
کمشنر آنجنے کمار سنگھ نے کہا ہے کہ مراد آباد ڈویژن میں اسپتالوں کی صلاحیت مسلسل بڑھائی جارہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں دوسرے میٹرو سٹی سے کے مقابلہ میں یہاں پریشانی کافی کم ہے۔ آکسیجن کی کمی کی بابت کہاکہ ان کے پاس فی الحال مناسب اسٹاک ہے اور دس ٹن لکویڈ کنکشن آج اور پہنچ گیا ہے۔ اس سے بیک اپ بنارہے گا۔ انہوں نے عوام سے امید کی ہے کہ لوگ کورونا کی علامت ملتے ہی ٹیسٹ کرالیں اور ہم آئیسولیٹ ہو کر احتیاط برتیں۔ لوگ معمولی بخار ،بدن درد اور زکام کو نظر انداز کردیتے ہیں جس سے سنگین حالت ہوجاتی ہے۔ صحت مند رہنے کے لیے معمولی علامات پر علاج ہو کر جلد ٹھیک ہوسکتے ہیں ۔انہوں نے تمام سے صبر کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔