مولانا عبدالحمید نعمانی
کسی بھی ملک میں تمام تر مساوی حقوق کے ساتھ ایک شہری کے طورسے باعزت زندگی گزارنا،اہم ترین بات ہے۔ یہ بھارت کے سلسلے میں بھی یہی صورت وحالت ہے۔ اس میں سیاست و قیادت کا بڑا رول ہوتا ہے۔ آزادی سےپہلے، دیگر مذاہب والوں کی طرح، مسلم اکابرو قائدین نے بھی ملک وملت کے تمام ضروری مسائل پرخاصے غور سے کام لیتےہوئےمختلف جہات سے اقدامات کیے تھے ۔ اگر تقسیم وطن کا المناک اور خوں چکاں بھیانک واقعہ نہ ہوتا تو بھارت اور اس کے باشندوں سمیت مسلمانوں کی تصویر و حالت پر ملت آج سے بہت مختلف ہوتی، آزادی سے پہلےمسلم لیگ، جمعیۃ علما ہند اور امارت شرعیہ بہار،اڑیسہ کے زیر سرکردگی و سربراہی جس قسم کی سرگرمیاں اور تحریک آزادی کے لیے کوششیں ہوئیں ، اگر وہ باہمی اتحاد و اشتراک کے ساتھ جاری رہتیں تو یقینا بہتر نتابئج و اثرات برآمد و مرتب ہوتے لیکن محمد علی جناح کی دین اور علما بیزاری کی غلط و ذہنیت نے حالات کو بگاڑنے کا کام کیا اور جمعیۃ علما ہند اور امارت شرعیہ اور ا ن کے اکابر، مولانا محمد سجادؒ ، مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا مفتی کفایت اللہؒ، مولانا احمد سعید دہلویؒ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاریؒ وغیرہم کی تمام ترمتحدہ و متفقہ کوششیں جناحی ضد کے سامنے بارآور نہیں ہوسکیں اور ایسے حالات پیدا ہوئے کہ بالآخر وطن تقسیم ہوگیاجس کے نتیجے میں دونوں طرف خصوصاً بھارت میں مسلم اقلیت کے لیے جو تکلیف دہ و بھیانک حالات پیدا ہوئے، ان میں اس کے لیے الگ اپنی آزاد سیاست و قیادت والی کسی متحدہ سیاسی پارٹی کی تشکیل کرکے اس کے جھنڈے تلے سیاسی و انتخابی عمل کی راہ میں کئی طرح کی رکاوٹیں اور دیواریں کھڑی ہوگئیں اوراولیں مسئلہ، مسلم ملت و اقلیت کے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ اور وجود کوبچانے اوربازآبادکاری کا ہوگیا۔ ہندو توادی عناصر گرچہ، آزادی کے پہلے بھی اپنے مقاصد و عزائم کو لے کرسرگرم عمل تھے۔ تاہم گاندھی ، نہرو کے عروج و ظہور اور اکابر جمعیۃ و امارت کی بیدار مغزی اور ان تھک جدوجہد کے طفیل ان کو مطلوبہ کامیابی نہیں ملی۔ لیکن آزادی اورتقسیم کے ساتھ ہی تیزی سے بدلتی صورت حال میں کانگریس اوراس کے بیشتر لیڈروں کے رویے میں تیزی سے تبدیلی شروع ہوگئی اور وہ بری طرح فرقہ پرست ہندوتوادی عناصر کی سرگرمیوں کے دباؤ میں آتے چلے گئے، گاندھی جی کی طرح ان میں بہت کم لیڈروں میں فرقہ پرستی اور فرقہ پرستوں سے مقابلے ومزاحمت کی طاقت اور جرآت و ہمت رہ گئی تھی ، اس کے باوجود مسلم اکابر اوران کی رہنمائی میں مسلم ملت نے خاصی بیداری اورہمت سے حالات کا سامنا و مقابلہ کیا اور اب بھی کررہی ہے۔ بہت سے لوگوں نے اپنے سیاسی اور دیگرمقاصد و عزائم کے پیش نظر مسلم اقلیت و ملت کی کمزوری ،مایوسی، اوربے ہمتی کی بہت بڑھا چڑھا کر تشہیر کی۔ جس کے نتیجے میں اس کی مایوسی، مصیبت اور غم و غصے میں اضافہ ہوا۔ اس کے باوجود یہ کہنا مبنی بر حقیقت نہیں ہوگا کہ مسلم ملت نے خود کو گم اورحاشیے پر رہنے کی حالت کو قبول کرلیا ہے۔ آزادی کے ساتھ ہی، ملک کے بدلتے منظرنامے میں مولانا آزادؒ، مولانا مدنیؒ مولانا حفظ الرحمنؒ، ڈاکٹر سید محمود نے درپیش صورت حال کا حسب استطاعت، پوری جرـات و ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا، اس کا ثبوت، جمہوری کنوینشن ، مسلم کنوینشن اور مسلم مجلس مشاورت وغیرہ کے تمام ترمخالفتوں کے باوجود پروگرام اور قیام ہے، اور بعد کے دنوں میں کئی معروف پارٹیوں اور تنظیموں کے قیام اور ا ن کی سرگرمیوں کو بھی صورت حال کے مقابلے و مزاحمت کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے، ضرورت ا س بات کی تھی کہ موجود تنظیموں اور پارٹیوں میں مشترکہ و متحدہ مقاصد واغراض کے تحت ساتھ ہوکر کام کیا جاتا۔ اس کے برعکس، اتحادو ضرورت کے اظہار اور مسائل کے نام پر گزرتے دنوں کے ساتھ نئی نئی پارٹیوں اور تنظیموں کی ولادت ہوتی چلی گئی اور اب بھی اس کی ضرورت کا آئے دن اظہار ہوتا رہتا ہے، 2014 کے بعد سے اس کے متعلق کچھ زیادہ ہی باتیں ہونے لگی ہیں، آزادی سے پہلے ، امارت شرعیہ اور جمعیۃ علما ہند کی سربراہی اور مولانا محمدسجادؒ کی قیادت میں ملی سیاست کا بہار میں ایک کامیاب تجربہ کیا گیا تھا، اگر مولانا محمد سجادؒ ملک کی آزادی تک باحیات ہوتے اور تقسیم وطن کا سانحہ پیش نہ آتا توبھارت کے کئی حصے میں بہار کے سیاسی تجربے کے مسلسل اعادے کے روشن امکانات تھے، جمعیۃعلما ہند کے فارمولے میں پوری پوری رہ نمائی موجود ہے۔ مولانامحمد سجادؒ اور سنگھ بانی ڈاکٹرہیڈگیوار کا آزادی سے پہلے ہی 1940 میں انتقال ہوگیا تھا، اورگاندھی جی بھی آزادی کےچند مہینے کے بعد ہی گوڈسے کی گولی کا شکار ہوگئے۔ اس کے پیش نظر ملک کے مستقبل اور نظام حکومت کی کامیاب شکل کے متعلق کوئی حتمی بات کہنا بہت مشکل ہے تاہم جمعیۃعلماہند اورامارت شرعیہ کے اکابراور مولانا سجادؒ ،مولانا مدنی اورمولاناآزادؒ وغیرہم کا طرز حکومت اورسیاسی نہج کے متعلق موقف بہت صاف ہے۔ مولانا محمد سجادؒ جمعیۃ علما ہند کے بنیادی ارکان و رہ نماؤں میں سے تھے اور مولانا مدنیؒ بھی، دونوں کے درمیان بنیادی مقاصدوامور کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں تھا، باہمی تعاون و اشتراک سے سارے کام انجام پاتے تھے، لیگ کی طرح تقسیم و جداگانہ سیاسی رویے کے لیے ان کی جدوجہد میں کوئی جگہ نہیں تھی،مولانا محمد سجادؒ کا ملک کی آزادی کے ساتھ پیدا شدہ حالات میں موقف جمعیۃ علما ہند اورمولانا آزادؒ اور مولانا مدنیؒ سے الگ نہیں ہوتا کہ تقسیم وطن سے سابقہ و سیاسی، سماجی منظرنامہ پوری طرح بدل گیا تھا،آزادی کےبعداورآج کے حالات کے تناظر میں آزادی سے پہلے کی صورت حال اور اقوال و افعال سے استدلال واستنباط قطعی طورسےبے دانشی،عجلت پسندی اور حالات سے از حد انفعالیت او اثر پذیری پر مبنی ہے نہ کہ حقائق و واقعات پر مبنی تجزیہ و رہ نمائی، عملی صورت حال کو نظر اندازکرکے خوبصورت الفاظ میں رومانی و نظریاتی بحثوں اور باتوں سے کسی جوہری تبدیلی کی توقع سراسر خوش فہمی ہوگی نہ کہ حقیقت بیانی، گزشتہ کچھ دنوں میں کئی طرح سے ایسے نقاط نظرونکات، زبانی و تحریری شکل میں سامنےآئے ہیں، جن پر سنجیدہ ونتیجہ خیز بحث و گفتگو کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مسائل اور سوالات پیش کرکے حل اور جوابات سے گریز قیادت ورہ نمائی کے تقاضوں کے منافی ہے، ڈاکٹرراشد شاز نے 1991 میں، ہندوستانی مسلمانوں کے پچاس سالہ ایام گم گشتہ کو تلاش کرکے دیا نہ منزل کی طرف جانے والے راستے کی واضح نشاندہی کی تھی، اور نہ اب 2021 کی” لایموت” میں زندگی کا صحیح سراغ مل رہا ہے، مولانا آزادؒ، مولانا مدنیؒ کو کم تردکھانے کے ساتھ اعلیٰ طریق کار کو بتائے بغیر تجزیہ و تبصرہ کوئی زیادہ بامعنی نہیں رہ جاتا ہے۔ ان کے بالمقابل جن اشخاص و افراد کے حوالے سے حالات و مسائل کو پیش کیا جاتا ہے وہ عملی سیاسیات اور حل مسائل کے تناظر میں مولانا آزادؒ ، مولانا مدنیؒ کے سامنے قدوپد کے لحاظ سے فروترہیں، کربلا شہادت کا حوالہ ہے نہ کہ قیادت سازی کا مقام، انحرافات کو صراط مستقیم میں بدلنے کی کوشش میں شہادت کی منزل بھی آسکتی ہے۔ ایسی حالت میں قیادت کے ظہور کی بڑی حدتک موہوم ومشکوک ہوتی ہے۔ یہ تاریخ کی نظروں نے بارہا دیکھا ہے۔ آزادبھارت میں مسلمانوں کی سیاست و قیادت کےحوالے سے مختلف پہلووں کوپیش کرنے کا کام کئی جہات سے ہوا ہے، جہاں مولانا وحیدالدین خانؒ نےاپنی کتابوں، قیادت نامہ، تعمیر ملت، مسائل اجتہاد، تعمیر کی طرف، ہندستان، آزادی کے بعد، اتحاد ملت، کاروان ملت، ہندستانی مسلمان،تعبیر کی غلطی، دین کی سیاسی تعبیر میں قیادت وسیادت والی اور ملت کے راستہ، منزل کے سلسلے میں کئی طرح کی باتیں لکھی ہیں وہیں مولانا سلطان احمد اصلاحیؒ (آزاد ہندستان میں مسلمان اور سیاست) اور ڈاکٹر الطاف اعظمی دیگر کتابوں کے ساتھ "احیائے ملت اور دینی جماعتیں” میں بھی جمعیۃ علما ہند، جماعت اسلامی ہند اور تبلیغی جماعت کے حوالے سے کئی امور کوزیر بحث لائے ہیں، گزشتہ کئی سالوں سے خصوصا 2014 سےمولاناخلیل الرحمن سجاد نعمانی بھی اپنے بیانات اورماہنامہ الفرقان کے اداریے میں اپنی قیادت میں ایک آزاد اور اصولی سوچ والی سیاسی پارٹی کی تشکیل کی ضرورت پر مسلسل متوجہ کرتے آرہے ہیں، الفرقان کی حالیہ اشاعت، بابت دسمبر2021 میں بھی اس پرمولانا سجاد نعمانی نےاپنی نگاہ اولیں ڈالی ہے۔ لیکن واضح موقف رکھنے کے بجائے تذبدب وتضاد فکرورائے کا شکار نظرآتے ہیں، جمعیۃ علما ہند، امارت شرعیہ، مولانا مدنی ؒاور مولانا سجاد بہاری ؒکے نقاط نظر میں اختلاف دکھاتے ہوئے، بذات خود اس کی تائید کرجاتے ہیں جس کی تردید کرکے ایک اصولی سوچ والی سیاسی پارٹی کی تشکیل کی ضرورت کا اثبات پر پورا زور لگایا جا رہا ہے۔
جماعت اور پارٹی کے نظام میں عملی شمولیت، نظریاتی استحکام وتصلب اورواضح موقف کے بغیر اپنی قیادت میں کسی بھی آزاد اور اصولی سوچ والی پارٹی کی تشکیل کس طرح ہوسکتی ہے اور کس طور سے اس سلسلے کی بات قابل توجہ واعتماد ہوگی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب عملا کوئی آسان نہیں ہے،جواب کےبغیرآزاد بھارت میں ملی سیاست کا رخ اور منزل کا راستہ طے نہیں ہوسکتا ہے۔