تحریر:ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
جب کسی ملک میں فرقہ وارانہ سیاست سماج میں پیوست ہوچکی ہوں، اور قانون کو بالائے طاق رکھ جاچکا ہو تو کسی کی عزت و عصمت محفوظ نہیں ہوتی ہے، اگر حکومتیں اور حکومتی ادارے کسی مخصوص طبقے کے خلاف ہونے والے ظلم و زیادتی کے واقعات پر خاموشی اختیار کرلیں تو سماج دشمن عناصر کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں، ہمارے ملک میں فرقہ پرست طاقتیں پوری طرح قانون سے آزاد محسوس ہورہی ہیں، نئے سال کی شروعات بھی ان کے مجرمانہ ذہنیت کا کھلے عام مظاہرہ کرتی ہوئی دکھائی دی، دھرم سنسدوں کا انعقاد کرکے مسلم نسل کشی پر ابھی کوئی قانونی پیش رفت ہونے سے پہلے ہی ایک بار پھر سوشل میڈیا سے متحرک مسلم خواتین کی تصاویر کے ذریعے ان 100 سے زیادہ خواتین کی آن لائن جعلی نیلامی کے لئے ایک ویب سائٹ بلی بائی بناکر مسلم خواتین کو فرقہ پرست سائبر حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ حملہ اپنی نوعیت کا پہلا حادثہ نہیں ہے جب مسلم خواتین اور لڑکیوں کو نشانہ بنایا گیا ہو بلکہ اس سے پہلے مئی 2021 میں یوٹیوب چینل لیبرل ڈاگی Liberal Doge کے ذریعے ایسی ہی حرکت کی گئی، پھر جولائی 2021 میں سلی ڈیلس Sulli Deals کے نام سے ایسی ہی ایک آن لائن ایپ گٹ ہب پر تیار کی گئی جس میں 80 سے زائد مسلم خواتین اور لڑکیوں کے فوٹو لگاکر ان کی نیلامی کا اعلان کیا گیا، سلی ڈیلس ایپ کے خلاف دہلی پولیس و سائبر کرائم میں ایف آئی آر درج تو ہوئی تاہم کوئی بھی پیش قدمی کرنے میں دہلی پولیس پوری طرح ناکام رہی جس کے بعد ایک بار پھر نومبر 2021 میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم کلب ہاوس Club House نے مسلم خواتین کی نیلامی کو لے کر آن لائن پروگرام جاری کیا لیکن ایک بار پھر پولیس و انتظامیہ نے کسی طرح کی قانونی پیش قدمی نہیں کی، اور پھر اس کے ایک ہی ماہ کے بعد بلی بائی نے مسلم خواتین اور لڑکیوں پر سائبر حملہ کردیا، چونکہ گزشتہ تین الگ الگ پلیٹ فارم سے یہ حملے ہوئے اور ان کے خلاف ایف آئی آر اور احتجاجات کے بعد بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تو اس بار ان مجرمین کے حوصلے اتنے بلند ہوئے کہ بلی بائی ایپ میں جن مسلم خواتین کو شامل کیا گیا ان میں صحافی، مصنف، سماجی کارکنان، اور طالبات کے ساتھ ہی موجودہ ہائی کورٹ جج کی اہلیہ کا نام اور فوٹو بھی سوشل میڈیا سے لے کر لگا دیا گیا جو بذات خود بھی ایک مصنف کی حیثیت سے عالمی شہرت و شناخت کی مالک ہیں۔
سُلی ڈیلس و دیگر ایپ کی طرح اس ایپ پر بھی کسی خاتون کو واقعتاحقیقت میں ‘فروخت’ نہیں کیا جا رہا تھا بلکہ ان مسلم خواتین کو ذہنی طور حراس اور بے عزت کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی تھی، یہ خواتین وہ ہیں جو سی اے اے اور این آر سی کے ایشو پر پیش پیش تھیں، جنہوں نے سماج میں ایک خاموش یا مظلوم عورت ہونے کے روایتی بھرم کو توڑتے ہوئے اپنی شناخت ایک بے باک آواز کی بنائی تھی جو حکومت اور اس کی پالیسیوں پر تنقید کر نے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتی ہیں۔ یہ حملہ خواتین پر ہرگز نہیں تھے بلکہ صرف ان خواتین پر تھےجو مسلم تھیں، سُلی اور بُلی بائی دونوں ہندی الفاظ عموما مسلم خواتین کے لیے توہین آمیز اور طنزیہ انداز میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
بلی بائی ایپ کے خلاف سوشل میڈیا و عوام میں سخت غصہ کے بعد اس بار متاثرہ خواتین کی شکایات کے بعد سب سے پہلے مہاراشٹر پولیس نے انڈین پینل کوڈ کی دفعات 153، 153B، 295A، 354، 500، 509، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000 کی دفعہ 67 کے تحت ایف آئی آر درج کرکے حرکت میں آگئی جس کے بعد بعد دہلی پولیس نے بھی مقدمہ درج کرتے ہوئے بُلی بائی ایپ کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ تحقیقات کے دوران مہاراشٹر پولیس اور دہلی پولیس نے اب تک کئی افراد کو گرفتار کیا ہے یہ گرفتاریاں ملک کے الگ الگ صوبوں سے ہوئی ہیں، لیکن کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ یہ تحقیقات ایمانداری کے ساتھ ہوں گی اور ٹرائل کے دوران استغاثہ ایمانداری سے مقدمہ کی پیروی کرے گا اور اس دوران ایسی کوئی غلطی نہیں کرے گا جس کا فائدہ ملزمین کو حاصل ہو اور وہ پہلے تو ضمانت اور اس کے بعد ہی باعزت بری بھی ہوجائیں۔
ہمارے ملک میں انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں پر نظر رکھنا آسان نہیں ہے، ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی آف انڈیا (ٹرائی) کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2021 تک ہمارے ملک میں کل 8 کروڑ 25 لاکھ انٹرنیٹ کنیکشن موجود تھے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے پاس کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (CERT-IN) کا ماہر شعبہ بھی موجود ہے جس کی مدد لے کر ہی مہاراشٹر اور دہلی پولیس نے بلی بائی ایپ کے ملزمین کو گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بلی بائی ایپ یا سلی ڈیلس ایپ کے ذریعے ان خواتین کو نشانہ بنایا گیا جو اعلی تعلیم یافتہ ہیں، جو اپنی آواز بلند کرتی رہی ہیں اور ان کی بلند آواز کی وجہ سے ہی مہاراشٹر اور دہلی کی پولیس کو حرکت میں آنا پڑا ہے، لیکن ایک سوال ذہن میں یہ بھی آتا ہے کہ ملک کی مضبوظ ترین 100 خواتین کی شکایت پر جب پولیس کو حرکت میں آنے میں تقریبا ایک سال کا عرصہ لگ گیا تو ان معصوم اور بے سہارا خواتین کا کیا ہوتا ہوگا جن کے منھ میں نا تو زبان ہوتی ہے اور نا ہی قلم میں ہمت۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی گزشتہ سالانہ رپورٹ “کرائم ان انڈیا 2020” کے اعداد و شمار کے مطابق اس پورے سال میں خواتین کے خلاف ہتک عزت اور فوٹوز کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرنے کی کل 251 شکایتیں کی گئیں، جب که خواتین کے نام سے فرضی پروفائل بنانے کی انڈین پینل کوڈ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ اور انڈیسنٹ رپرزنٹیشن آف وومن (پروہبیشن) ایکٹ کی دفعات کے تحت 354 ایف آئی آر درج ہوئیں۔ این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق 2020 کے دوران سائبر کرائم کے کل 50035 واقعات رپورٹ ہوئے جس میں خواتین کے خلاف کل 10405 واقعات درج ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس میں ان حادثات کو لے ایف آئی آر درج کروانا ایک بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے خصوصا اس خاتون یا اسکول کی طالبہ کے لئے جو ایک شریف مسلم گھرانے سے تعلق رکھتی ہو اور کسی چھوٹے قصبہ یا شہر سے تعلق رکھتی ہو اور اس کو انٹرنیٹ کے ذریعے بلیک میل یا بے عزت کرنے کی کوشش کی جارہی ہو۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسا کرمنل کمپلین نظام بنایا جائے جس میں بغیر کسی مشقت اور پریشانی کے شکایات کو درج کیا جائے، پولیس شکایات درج کرنے کا نظام جتنا مشکل ہوگا یقینا سائبر کرائم اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرنے والوں کے حوصلے اتنے ہی بلند ہونگے۔ ہمارے سماج میں سائبر کرائم اور اس سے تحفظ کو لے کر بیداری پیدا کرنا اشد ضروری ہے، خصوصا نوجوانوں لڑکیوں اور خواتین میں، تاکہ ان کی معصومیت یا سماج میں بدنام ہونے کے ڈر اور خوف کا غلط فائدہ نا اٹھایا جاسکے، سماج کے اہم اداروں مثلا اسکول کالج و دیگر پلیٹ فارم خصوصا سوشل میڈیا کو اس سلسلے میں اہم رول ادا کرنا ہوگا، وہیں پولیس تھانوں اور عدالتوں میں سائبر کرائم و سائبر قوانین کے ماہرین کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمارے پولیس تھانوں میں پولیس اہلکاروں کی کم تعداد اور زیادہ کام کا دباو بھی ایک اہم سبب ہے جس کی وجہ سے پولیس شکایات پر ایف آئی درج نہیں کرتی، اور جن مقدمات میں شکایات درج ہوجاتی ہیں ان میں پھر تحقیق و تفتیش صحیح طریقے سے نہیں ہوتی، جب کہ موجودہ نظام میں کرپشن دیمک کی طرح تمام اداروں کو کھوکھلا کرچکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس افسران و اہلکاروں کی اچھی تربیت کا انتظام کیا جائے، سائبر کرائم پر ان کی ٹریننگ کا انتظام ہو، پولیس تھانوں کی تعداد بڑھائی جائے، ان تھانوں میں پولیس اہلکاروں کی تعداد کو بڑھایا جائے، تفتیش میں تیزی لانے کی کوشش کی جائے۔
عدلیہ کو مقدمات کے تصفیہ میں اپنی رفتار میں تیزی لانی ہوگی، این سی آر بی کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2020 کے دوران سائبر بلیک میل اور دھمکی دینے کے صرف 9 مقدمات میں ٹرائل مکمل ہوسکا، جب کہ 393 مقدمات ابھی زیرسماعت ہیں، اس طرح خواتین کو آن لائن پریشان کرنے نیز ان کا پیچھا کرنے کے 29 مقدمات کا تصفیہ ہوا جب کہ 1508 مقدمات ابھی زیرسماعت ہیں، وہیں فرضی طریقے سے کسی لڑکی کے فوٹو اور نام سے سوشل میڈیا پر پروفائل بنانے کے صرف 2 مقدمات کا تصفیہ ہوا جب کہ 148 مقدمات زیر سماعت ہیں، غرض جب تک عدلیہ اور پولیس ادارے ان جرائم کی روک تھام کے لئے تساہلی کی جگہ پوری سنجیدگی کے ساتھ کوشش نہیں کریں گے یہ مسائل یونہی پیدا ہوتے رہیں گے خصوصا مسلم طبقے اور ان کی خواتین کے سامنے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)