تحریر:شکیل رشید
بلقیس بانو کے مجرموں کی ’رہائی‘ کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔ جی ہاں! اس ملک میں ایک عرصے سے کوشش یہی کی جارہی ہے کہ مسلمانو ں کو ان کی اوقات بتادی جائے۔ مطلب یہ کہ انہیں یہ بتا دیاجائے کہ سماج میں ان کی حقیقی جگہ دوسروں کے قدموں کے پاس بیٹھنا ہے۔ یہ دوسرے کون ہیں؟ یہ وہی ہیں جو بلقیس بانو کا او رنہ جانے کتنی ہی خواتین کا ریپ کرتے ہیں، اور آرام کے ساتھ معافی پاکر جیل سے باہر آجاتے ہیں، یا پھول سے لاددئیے جاتے ہیں، مٹھائیاں کھاتے اور کھلاتے ہیں ۔ اور ’سنسکاری‘ کہے جاتے ہیں۔ ’سنسکاری‘ کا مطلب ’بااخلاق ہوتا ہے! جی ! یہ جو یرقانی ہیں، ان کی لغت میں زانی، قاتل اور لٹیرے بااخلاق کہے جاتے ہیں۔ وہ جو ’ماب لنچنگ‘ کرتے ہیں، وہ بھی ان کے یہاں ’بااخلاق‘ یعنی ’سنسکاری‘ ہیں۔ اب یہی دیکھئے کہ دادری میں محمد اخلاق کی( جس کا ایک بیٹا فوجی ہے اور رات دن بھارتیوں کی زندگیاں بچانے کےلیے اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہتا ہے) ’ماب لنچنگ‘ کرنے والے ایک مجرم روی عرف رابن کی موت کے بعد اس کی لاش کو ترنگے سے لپیٹا گیا تھا! جی ہاں ! یہ ہر اس شخص کو، جس نے کسی غیر۔۔۔۔مطلب کسی مسلمان یا دلت کی۔۔۔’ماب لنچنگ‘ کی ہو، اسے ’قوم پرست‘ سمجھتے اور کہتے ہیں۔
گویا یہ کہ اس ملک میں ۲۰۱۴ کے بعد سے، مودی سرکار کا قیام ہوتے ہی جو ’ماب لنچنگ‘ کا سلسلہ شروع ہوا ہے، اس میں شریک تمام کے تمام افراد ’قوم پرست‘ ہیں، مجرم نہیں ہیں۔ یاد ہے نہ جھارکھنڈ میں ’ماب لنچنگ‘ کرنے والوں کو ایک بھاجپائی سیاست داں جینت سنہا نے جو یشونت سنہا کے صاحب زادے ہیں ہار پھول پہنائے تھے، راجستھان میں افرازل کو لائیو زندہ جلانے والے شنبھویادو کی حمایت میں ترنگا یاترا نکالی گئی تھی، ان کے یہاں ہر وہ شخص جس نے فسادات کے دوران کسی غیر کی جان لی ہو، اس کو اجاڑا ہو، اس کے گھر کو دکان کو پھونکا ہو، وہ سب کے سب ’سنسکاری‘ ہیں، ’بااخلاق‘ ہیں، اور ’قوم پرست‘ ہیں۔ اور آج اس ملک پر ’سنسکاریوں‘ ، ’بااخلاق لوگوں‘ اور ’قوم پرستوں‘ ہی کا راج ہے، اسی لیے تو ساری دنیا میں بھارت کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ ہاں! یہ تو بھول ہی گیا کہ وہ بھی جو غیروں کے مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین کریں، وہ تو ان کے یہاں پوجے جاتے ہیں۔ دیکھ ہی لیں کہ نوپور شرما پر کتنی نکتہ چینی کی گئی، گرفتاری کےلیے کیسے کیسے لوگوں نے آواز اُٹھائی، ایف آئی آر درج کروائیں اور مظاہرے کیے، لیکن وہ آزاد کی آزاد ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ ان کےلیے ’قابل تعظیم‘ ہے۔ وہ سب جیسے کہ شکن پوجا اور یتی نرسنگھا نند وغیرہ سب کے سب ’قابل تعظیم‘ ہیں۔ یہ سب یرقانی ٹولی کے صف اول کے ’لڑاکا‘ ہیں۔
یہ اس ملک میں ہندوئوں کو آسمان کی بلندیوں تک لے جانے کی لڑائی لڑرہے ہیں کیو ںکہ ان کے بقول آج تک ۸۰ فیصد ہونے کے باوجود ہندوئوں کے ساتھ ’جبر‘ اور ’ناانصافی‘ ہوتی آئی ہے۔ بھلے ہی انہو ںنے بابری مسجد پر قبضہ کرلیا ہو، اس کی جگہ رام مندر بنارہے ہوں، بھلے ہی مسجدوں کے میناروں سے لائوڈ اسپیکر ہٹوادئیے اور فجر کی اذانیں بند کرادی ہوں، مگر یہ سب ’مظلوم‘ ہیں ۔۔۔۔اب یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو، دلتوں اور پچھڑوں کو ان کی صحیح جگہ پر لا کر بٹھادیاجائے، انہیں ان کی ’اوقات‘ بتادی جائے۔۔۔بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی اسی لیے کی گئی ہے۔ یہ بتانا ہے کہ ’تم کچھ نہیں ہو، ہم ہی ہم ہیں‘ اور ہم جو چاہیں گے ویسا ہی ہوگا۔ گویا یہ بھگوان بنے بیٹھے ہیں،تکبران کے سروں پر چڑھ گیا ہے۔ احمد فراز کا ایک شعر ان کی نذر ہے ؎میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں