نیوز ویب سائٹ ’’ ایکسیوس‘‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے مصر اور غزہ کی سرحد کے ایک حصے سے اسرائیلی افواج کو ہٹانے کو کہا اور نیتن یاہو نے فلاڈیلفیا کے محور سے ایسے جزوی انخلا پر اتفاق کیا جس سے اس کے آپریشنل کنٹرول کو نقصان نہ پہنچے۔
وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کی کوشش میں قاہرہ کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز اس میں حصہ لے رہے ہیں۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ پیش رفت ہو گئی ہے، اب ہم دونوں فریقوں کو اس پر عمل درآمد کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیا تھا کہ موساد اور شن بیٹ کے سربراہ ایک امریکی وفد کے ساتھ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے معاہدے پر بات چیت کے لیے قاہرہ پہنچے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ترجمان اومیر دوستری نے کہا ہے کہ موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا اور شن بیٹ کے سربراہ رونن بار اس وقت قاہرہ میں ہیں جہاں وہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔
نیتن یاہو کے دفتر نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کے درمیان سرحد پر فلاڈیلفیا کے محور پر بین الاقوامی افواج کی تعیناتی کے خیال کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
فلاڈیلفیا کا نقشہ
اسرائیلی حکام نے ’’ ایکسیوس‘‘ کو بتایا کہ ان کے پاس فلاڈیلفیا محور میں اسرائیلی افواج کی تعیناتی کے حوالے سے ایک سب سے قریبی نقشہ موجود ہے۔ قاہرہ مذاکرات کا مقصد کسی معاہدے تک پہنچنے میں حائل آخری رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ اس سے قبل العربیہ یا الحدث ذرائع نے اطلاع دی تھی کہ مصر میں مذاکرات دو دن تک جاری رہیں گے اور اختلافات دور ہونے کے بعد مذاکراتی سیشن کو بڑھا دیا جائے گا۔
ذرائع نے مزید کہا کہ امریکہ نے ثالثوں کو آگاہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے گا ۔ مصر اور قطر حماس پر دباؤ ڈالیں گے۔ قاہرہ نے فلاڈیلفیا محور سے اسرائیلی فوج کے انخلا کو مذاکرات کی کامیابی کے لیے شرط قرار دیا ہے۔ تل ابیب چاہتا ہے کہ اصولی طور پر اس کی افواج سال کے آخر تک اسی محور پر رہیں۔
غزہ معاہدے کی بات چیت سے واقف ایک ذریعے نے اسرائیلی نشریاتی ادارے کے بیانات میں کہا ہے کہ مصر اور قطر کا خیال ہے کہ کسی معاہدے تک پہنچنے کا واحد راستہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ اپنے کچھ عہدوں کو تبدیل کر کے اسرائیلی مذاکراتی ٹیم کو وسیع اختیارات دیں۔