تحریر: آشوتوش پانڈے
عالمی معیشت کی سست انداز میں ریکوری کی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے یا انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور تنظیم برائے اقتصادی تعاون و ترقی (OECD) سے منسلک ماہرین نے رواں برس کی آخری سہ ماہی میں عالمی پیدوار کی شرح میں کمی کر دی تھی۔
دوسری جانب وہ نئے سال کے لیے طے کردہ شرح پیداواری افزائش پر یقین رکھتے ہیں کہ معاشی حالات میں سدھار پیدا ہو سکتا ہے اور عالمی اقتصادیات کا پہیہ اپنی سابقہ رفتار سے گھومنا شروع کر دے گا۔
اس خوش آئند اپروچ کے باوجود کووڈ انیس وبا کے ویریئنٹس معاشی پہیے کو پٹری سے اتار بھی سکتے ہیں۔ اسی ایک بڑے خطرے کی وجہ سے سرمایہ کار نئے سال کی آمد سے قبل فکرمند ہیں کہ وہ کوئی قدم اٹھائیں یا وبا کے پھیلاؤ میں میں کمی کا مزید انتظار کریں۔
سن 2021 کے مہینے نومبر میں مالی منڈیوں کو کورونا وائرس کے نئے ویریئنٹ اومیکرون نے شدید دہچکا پہنچایا۔ اومیکرون کی جنوبی افریقہ میں پہلی دفعہ نشاندہی ہوئی تھی اور اب مختلف ممالک میں یہ پھیل چکا ہے۔ اس ویرئنٹ کی وجہ سے مالی منڈیوں کو شدید مندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس وقت بھی کورونا وائرس کے اومیکرون ویریئنٹ پر عالمی مالی منڈیوں کے سرمایہ کاروں کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ یہ منڈیاں بدستور اوپر نیچے ہو رہی ہیں اور اس کے منفی اثرات عالمی اقتصادیات پر پڑ رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اومیکرون بظاہر ڈیلٹا ویریئنٹ سے زیادہ خطرناک نہیں لیکن اس کا پھیلاؤ بہت تیز ہوتا ہے۔ جے پی مورگن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اومیکرون خطرناک نہیں تو پھر وبا کے ختم یا کمزور ہونے کا بھی امکان بڑھ جائے ہے۔
ماہرین بدستور مستقبل میں سامنے آنے والے ممکنہ نئے ویریئنٹس پر بھی نگاہیں جمائے ہوئے ہیں اور کسی ایک خطرناک ویرئنٹ کی پیدائش سے اقتصادی ریکوری کی سب کوششیں ضائع ہو سکتی ہیں۔
عالمی معیشت کی بحالی میں ایک اور رکاوٹ اشیا کی قلت اور سپلائی یا رسد میں واضح کمی ہے۔ سمندری مال برداری کا عمل سست ہو چکا ہے۔ وبا کی وجہ سے امریکی اور یورپی بندرگاہوں پر سامان سے بھرے کنٹینر جمع ہیں۔ وبا کی وجہ سے سمندری مال برداری کے کرایوں میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اس اضافے کی وجہ سے اقوام عالم کو اشیاء کی قلت کا سامنا ہے اور اس قلت کے باعث مہنگائی بڑھ رہی ہے۔
کار انڈسٹری شدید متاثر ہے اور اس کی سپلائی بھی کئی رکاوٹوں کی وجہ سے انتہائی سست ہو چکی ہے۔ کئی کار ساز اداروں نے پیداواری عمل انتہائی سست کر دیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ایک خاص چِپ یا سیمی کنڈکٹرز کی شدید قلت بتائی جاتی ہے۔ جرمن کار ساز اداروں نے بھی پروڈکشن کے عمل کو کم کر دیا ہے کیونکہ سیمی کنڈکٹرز دستیاب ہی نہیں ہو رہے۔ سمندری مال برداری میں پیدا مشکلات بھی عالمی معیشت کا پہیہ سست کیے ہوئے ہے۔
اشیا کی قلت، خام مال کی کمی اور فیول کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے یورو زون اور امریکا میں افراطِ زر میں اضافہ ہو چکا ہے۔ موجودہ افراطِ زر کو بھی عالمی معیشت کی بحالی میں ایک بڑی رکاوٹ خیال کی جاتی ہے۔ اس تناظر میں ماہرین کو خدشہ لاحق ہے کہ مختلف ملکوں کے مرکزی بینکس قبل از وقت شرحِ سود میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو عام اشیاء کی قیمتیں اور زیادہ ہو جائیں گی۔
یورپی سینٹرل بینک کا خیال ہے کہ اس وقت اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کم مدتی فیکٹرز کا نتیجہ ہے۔ ان میں اشیا کی قلت ایک اہم فیکٹر ہے۔ یورپی مرکزی بینک کو یقین ہے کہ افراطِ زر میں اس وقت کمی واقع ہو جائے گی جب طلب اور رسد میں عدم توازن ختم ہو جائے گا۔
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ سن 2022 کے بیشتر مہینوں میں افراطِ زر میں کمی کا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔ اس تناظر میں امریکا میں پائے جانے والے خدشات زیادہ شدید ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا اور دوسری ترقی یافتہ ممالک کو اقتصادی رفتار کو بہتر کرنے کے لیے مالی امدادی پیکجز متعارف کرانے ہوں گے اور روزگار کی منڈی کو بھی بہتر کرنا ہو گا۔
دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے حامل ملک چین میں بھی پیداواری عمل سست روی کا شکار ہے۔ اس سست روی کی وجہ سے بھی سرمایہ کاروں کو سن 2022 کی معاشی آؤٹ پُٹ کے حوالے سے بھی فکرمند ہیں۔ چینی معیشت سن 2020 میں تیزی کے
ساتھ وسعت اختیار کرنے میں کامیاب رہی تھی اور اس کی وجہ الیکٹرانک اور طبی سامان کی عالمی طلب تھی۔ چین نے وبا کے دوران اقوام عالم کی طلب کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
اب چین میں وبا تو کسی حد تک کنٹرول میں ہے لیکن بیجنگ کا ٹیکنیکل کمپنیوں اور دوسری پیداواری شعبوں پر کیے گئے کریک ڈاؤن نے پیداواری عمل کو سست کر دیا ہے۔ اس کریک ڈاؤن میں ٹیکنیکل ادارے علی بابا اور ٹین سینٹ کے مالکان خاص طور پر شامل ہیں۔
اسی طرح ریئل اسٹیٹ کے بڑے نام ایورگرانڈے اور کیئسا کو بھی کریک ڈاؤن کا سامنا رہا ہے۔ چین کے پرائویٹ ایجوکیشن سیکٹر کو بھی حکومتی کارروائیوں نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ان حالات نے چینی معیشت کو سست کر رکھا ہے اور سن 2022 میں بیجنگ کو ملکی اقتصاد کو متحرک کرنے کے لیے مالی امدادی پیکج متعارف کرانا ضروری ہو سکتا ہے۔
(بشکریہ: ڈی ڈبلیو)