وقف ترمیمی بل کے خلاف مسلم تنظیموں کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاج کے اعلان کے بعد، جوائنٹ پارلیمنٹ کمیٹی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے پیر کو کہا کہ بل کو کسی بھی دھمکی یا دباؤ سے پاس ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔
آئی اے این ایس سے بات کرتے ہوئے، جگدمبیکا پال نے کہا، ”سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ہمیشہ ایک متبادل ہوتا ہے لیکن کیا جمہوریت کے طور پر ہمیں صرف دھمکیوں کے ذریعے کام کرنا چاہیے یا لوگوں کی مرضی سے؟ "منتخب افراد قانون بناتے ہیں مگردھمکیوں سے نہیں۔”
حکومت کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمہ جہتی مشاورت کے ساتھ بل کا بغور جائزہ لیا گیا ہے۔ تاہم،مسلم پرسنل لاء کے ارکان نے جے پی سی پر الزام لگایا ہے کہ اس نے بل پیش کرنے سے پہلے اسکالرزسے مشورہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی میٹنگ کی۔ انہوں نے بورڈ کے اقدامات پر بھی تنقید کی جہاں انہوں نے قانونی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے ملک گیر ایجی ٹیشن کا اعلان کیا ہے۔ "انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نے بورڈ کو چھ ماہ کی مدت کے لئے چار گھنٹے دے کر ان کے تحفظات کو سنا۔ اب ہم نے 400 صفحات پر مشتمل ایک ترمیم تیار کی ہے جو اقلیتوں کی ضروریات سے متعلق ہے اور ملک کے غریبوں، خواتین، یتیموں، بیواؤں اور معاشی طور پر پسماندہ مسلمانوں کی مدد کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترامیم ضروری ہیں اور اس سے ان لوگوں کو فائدہ پہنچے گا جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے یعنی کمزور طبقات کو اس کے بعد انہوں نے اس بات پر یقین ظاہر کیا کہ بل مسلم گروپوں کی طرف سے دکھائی جانے والی کسی مزاحمت سے نہیں رکے گا۔ دریں اثنا، تمام مسلم گروپوں نے اس بل پر سخت تنقید کی ہے اور الزام لگایا ہے کہ بی جے پی ایسے قوانین لا کر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے جو ’غیر آئینی‘ ہیں۔
مسلم پرسنل لاء کے احتجاج کے اعلان کے بعد، جمعیۃ علماء ہند،جماعت اسلامی ہند ودیگر مسلم تنظیموں نے اپنی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مسلمانوں کو سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔