تحریر:کلیم الحفیظ-نئی دہلی
ملک کے حالات سے ہر باخبر شہری واقف ہے۔جس قدر تیزی سے حالات بدل رہے ہیں ،انھیں دیکھ کر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب کیا ہوجائے۔مسلمانوں کے تعلق سے کھلے عام مارنے اور قتل کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔مسلمانوں پر زیادتیاں تو پہلے بھی ہوتی تھیں ،لیکن اس وقت ظالموں کا کوئی ساتھ نہیں دیتا تھا ،سیکولر پارٹیاں ان کی حرکتوں کی مذمت کرتی تھیں ،انصاف پسند آوازیں اٹھتی تھیں ،لیکن اب اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ہری دوار سے مسلمانوں کے قتل عام کی جو صدا لگائی گئی ہے ،اس سے پورے ملک میں مسلمان غیر محفوظ ہوگئے ہیں۔دوسری طرف مسلم قیادت صرف بیان بازی پر ہی اکتفا کیے بیٹھی ہے ،گھر کسی کا محفوظ نہیں ہے ،مگر سب ایک دوسرے کے جلتے ہوئے گھر کا تماشا دیکھ رہے ہیں ۔حالاں کہ اب بیان بازی کا وقت نہیں ہے،اب تو عملی اقدام کا مرحلہ آگیا ہے۔جب کھلے عام شرپسندعناصر ہتھیار اٹھانے پر آمادہ ہے،جب قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش رہ کر ان کی تائید کررہے ہیں ،جب انصاف پسند آوازیں پست ہوچکی ہیں ،تب دوسری قوم کو بھی اپنے دفاع کی تیاری کرنا چاہیے۔
یہ تیاری کیا ہو ؟ کیسے ہو؟کون کرے ؟یہ ایک سوال ہے جو اہم ہے۔ایک تیاری تو یہ ہے کہ مسلم امت بھی ہتھیار اٹھائے۔اس کے نوجوان بھی جنگی تربیت حاصل کریں۔مگر کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟میں سمجھتا ہوں کہ بھارت جیسے ملک میں یہ مسئلے کا حل نہیں ہے ۔بلکہ مزید مسائل کے پیدا کرنے کا سبب ہے ۔اس کے باوجود اپنے دفاع کا حق ہر انسان کو آئین میں دیا گیا ہے ۔قانونی طور پر سیلف ڈیفینس کی تیاری کرنا کوئی برائی نہیں ہے۔اس لحاظ سے مسلم علاقوں میں سماج کے ذمہ دار افراد آئین کے دائرے میںاپنی آبادیوں کو محفوظ بنانے کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں ۔البتہ اس حفاظت کا دائرہ صرف مسلمانوں تک محدود نہ ہو ،بلکہ اس دائرے کو انسانیت کا دائرہ بنایا جائے۔ایک مسلمان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنی آبادیوں میں رہ رہے غیر مسلموں پر ہاتھ اٹھائے ۔ان کا دین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ان کی روشن تاریخ اس پر گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر غیروں کی حفاظت کی ہے۔میری ان نوجوانوں سے گزارش ہے جو قوم کے لیے فکر مند دل رکھتے ہیں کہ وہ خود کو اس کے لیے تیار کریں کہ اگر سماج دشمن عناصر ان کو لقمۂ تر سمجھنے کی بھول کریں تو انھیں لوہے کے چنے چبانے پڑیں۔
تیاری کا ایک پہلو قانونی ہے۔ابھی آئین میں وہ تمام دفعات موجود ہیں ،جو شرپسندوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا سکتی ہیں۔ملکی سطح پر مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسے ادارے کی سرپرستی میں یا ملی جماعتوں کی نگرانی میں وکلاء کی ایک تنظیم قائم ہو جو قانونی کارہ جوئی کرے ۔یہ قانونی کارروائی بھی اس وقت تک جاری رہے جب تک کہ اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچے ۔اکثر ایساہوتا ہے کہ ہم قانونی کارروائی کرتے ہیں ،مختلف علاقوں میں ایف آئی آر درج کرائی جاتی ہیں ،لیکن ان کا بہتر طریقے سے فالواپ نہیں ہوتا،جس کی وجہ سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوتا ،بابری مسجد کے تعلق سے یہ ہم دیکھ چکے ہیں۔قانونی تیاری کے ضمن میں یہ بات بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ ہم خود بھی قانون کی پابندی کریں ،خاص طور پر ہمارے تعلیمی و رفاہی ادارے اس کا بھر پور خیال رکھیں ۔قانون کا علم حاصل کرنابھی ضروری ہے ۔ہر بستی میں ایسے دوچار افراد ہونے چاہئیں جو قانون کا علم رکھتے ہوں ،تاکہ وقت ضرورت قانون سے مدد لی جاسکے۔
جنگ کا ایک ہتھیار تعلیم ہے۔یہ بات لائق اطمینان ہے کہ ملت کا رجحان تعلیم کی طرف بڑھا ہے۔مسلم لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کررہی ہیں ۔ لیکن ابھی خاطر خواہ تعداد میں ہمارے پاس اسکول نہیں ہیں ۔اس لیے اس جانب بھی توجہ کی ضرورت ہے ۔ہر بستی میں معیاری اداروں کی ضرورت ہے ۔ہمارے درمیان بہت سے افراد ہیں جو تعلیم کا کام انجام دے رہے ہیں ،اگرچے ان کی تعداد شمالی ہند میں کم ہے ۔جنوبی ہندوستان کے مسلمان لائق مبارکباد ہیں کہ انھوں نے گزشتہ چالیس سال میں خود کو تعلیمی میدان میں خود کفیل بنایا ہے ،وہ لوگ شمالی ہند کے لیے بھی ہمدردی رکھتے ہیں۔اس تجربے کو شمالی ہند میں بھی آزمانا چاہیے ۔اگر تعلیمی اداروں یا تعلیم کا کام انجام دینے والوں کا وفاق بن جائے ،خواہ ملکی سطح پر نہ بھی ہو صرف ریاستی پر ہو توتعلیم کے میدان میں منصوبہ بند کوشش کی جاسکتی ہے۔تعلیم ایک ایسا ذریعہ ہے جو خود کفیل بھی بنائے گا اور محفوظ بھی۔
تیاری کا ایک پہلو اخلاقی بھی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔جو قوم اخلاقی پسماندگی کا شکار ہوجاتی ہے ،وہ زوال کا بھی شکار ہوجاتی ہے۔اخلاق میں خاص طور پر ہمارے معاملات ہیں ، ہم خود سے بھی ایمان دار نہیں ہیں ،دوسروں کے ساتھ کیا ایماندار ہوںگے۔ اس موضوع پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ اب لکھنے کی ضرورت نہیں ،اسی اخلاق کا حصہ اتحاد ہے ۔جس کی ضرورت سب محسوس کرتے ہیں لیکن عمل کوئی نہیں کرتا۔خواہ وہ سیاسی اتحاد ہو یا دینی و سماجی ۔اتحاد کے نام پر نئی نئی تنظیمیں وجود میں آئیں،لیکن سربراہی کے نام پر منتشر ہوگئیں۔ہماری اخلاقی کمزوری میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ غازی اور مجاھد پڑوسی کے گھر پیدا ہو۔میری گزارش ہے کہ کم سے کم وہ اخلاقی قدریں اپنے اندر پیدا کی جائیں جو کسی سماج کی ترقی کے لیے ضروری ہیں ۔میں آپ سے نماز روزے کا مطالبہ نہیں کرتا،میں نہیں کہتا کہ آپ داڑھی رکھیں یا ٹوپی لگائیں ،اس کے لیے پوری جماعت موجود ہے ،یہ آپ کی دینی ذمہ داری ہے ،یہ آپ کا اور خدا کامعاملہ ہے ۔لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ سچائی،وفاداری،خلوص،ایثار ،وفاداری ،عہد کی پابندی اور ایمان داری کو اپنائیں ۔جو قومیں آج دنیا کی حکمراں بنی بیٹھی ہیں وہ بھلے ہی خنزیر کا گوشت کھاتی ہیں یا شراب کے جام لنڈھاتی ہیں لیکن اجتماعی طور پر ان کے یہاں وہ اخلاقی قدریں پائی جاتی ہیں جن کا ذکر میں نے کیا ہے۔
یاد رکھیے کوئی بھی مضبوط اور بلندعمارت مضبوط بنیاد پر ہی تعمیر کی جاسکتی ہے ۔اسی طرح قوموں کی عمارت بھی مضبوط بنیاد پر ہی تعمیر کی جاسکتی ہے ۔ بنیاد کی اینٹیں پوری عمارت کا بوجھ اٹھاتی ہیں لیکن اس بات کا شکوہ نہیں کرتیں کہ ہم پر مالک مکان نے روغن نہیں کیا ،ہمارا نام نہیں لیا،ہمیں نمایاں جگہ نہیں دی گئی ۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے پاس بنیاد کی اینٹیں نہیں ہیں ۔ہم میں سے ہر شخص بغیر کام کیے بڑا عہدہ چاہتا ہے۔عہدہ حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے ،نہ ملنے پر اجتماعیت کو نقصان پہنچا نے لگتا ہے ،اسلام کے غلبے میں ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ کرام کا کردار ہے ،ہم لوگ دس بیس صحابہ کے ناموں سے ہی واقف ہیں ،اگر تمام صحابہ اپنے نام ، عہدے اور نمایاں ہونے کے لیے جد جہد کرتے تو اسلام کو غلبہ کیسے نصیب ہوتا ۔بھارتی مسلمان انتہائی نازک موڑ پر ہیں ،کرو یا مرو کی پوزیشن ہے ۔بھارتی مسلمانوں کو مضبوط قلعے کی ضرورت ہے جو ان کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہو ،موجودہ حالات سے نبر دآزما ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ بنیاد کی اینٹیں فراہم کی جائیں۔ہم خود بنیاد کی اینٹ بنیں ،قوموں کے حالات بدلنے کے لیے افراد کو قربانیاں دینا پڑتی ہیں ۔میری دردمندانہ اپیل ہے اپنے تمام قارئین سے،اپنی قوم کے ذمہ دار افراد سے کہ جس طرح آپ اپنے گھر کی تعمیر ،ترقی اور خوش حالی کے لیے قربانیاں دیتے ہیں ،اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ اپنی قوم اور اپنے ملک کی فلاح کے لیے قربانی دیں ۔ہمیشہ یہ آرزو کریں کہ آپ بنیاد کی اینٹ بن جائیں ،جسے کوئی دیکھتا نہ ہو،جس کی کوئی تعریف نہ کرتا ہو۔یہ یقین رکھیے کہ اللہ سب کچھ دیکھتا اور جانتا ہے ،وہ انصاف کرنے والا ہے ،وہ آپ کو بنیاد میں رہنے کے بعد بھی نوازے گا،جب وہ آپ کا نام بلند کرنا چاہے گا تو پھر آپ کو کوئی نیچے نہیں گرا سکتا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)